رسائی کے لنکس

کابل: طالبان سے بات چیت کے لیے ایک ماہ جنگ بندی کی شرط


حمد اللہ محب
حمد اللہ محب

افغان قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے کہا ہے کہ گزشتہ دو سال سے افغان حکومت بغیر کسی شرائط کے طالبان سے بات چیت کرنے پر تیار تھی۔ تاہم، اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ اب، ان کے بقول، ’’افغان حکومت نے امن مذاکرات سے پہلے ایک ماہ کی جنگ بندی کی شرط عائد کی ہے‘‘۔

افغان حکومت کی قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے یہ بات پیر کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں افغان حکومت کے سات نکاتی مجوزہ امن منصوبے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہی۔

حمد اللہ محب نے کہا کہ افغان حکومت نے طالبان سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ اب بھی ان کا اپنی فورسز پر کنڑول ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اس بات کی اشارے مل رہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ دوبارہ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا خواہاں ہے۔

محب نے دعویٰ کیا کہ طالبان اب ایک مربوط گروپ نہیں ہیں؛ اور ان کےبقول، ’’ایسی اطلاعات ہیں کہ طالبان کے بعض کمانڈر شدت پسند گروپ داعش میں شامل ہو گئے ہیں‘‘۔

محب نے کابل میں نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’اگر طالبان امن چاہتے ہیں تو انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کا اپنے کمانڈرز پر کتنا کنڑول ہے اور ان کی کمانڈ کی کتنی اطاعت کرتے ہیں۔ "

انھوں نے مزید کہا کہ "ہم ایک ماہ کی جنگ بندی تجویز کرتے ہیں، جس کے بعد امن بات چیت کا آغاز ہو۔ "

افغان قومی سلامتی کے مشیر کے بیان پر افغان طالبان کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم، قطر کے دارالحکومت دوحہ میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین قبل ازیں اس تاثر کو رد کر چکے ہیں کہ افغان طالبان کے جنگجو متحد نہیں ہیں۔

گزشتہ ماہ وائس امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کے تمام جنگجو اور کمانڈر طالبان قیادت کے تحت متحد ہیں، جبکہ طالبان قبل ازیں کابل سے براہ راست بات چیت اور جنگ بندی سے انکار کرتے آرہے ہیں۔

افغان قومی سلامتی کے مشیر کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے ہے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت ختم ہو گئی ہے۔ تاہم، اس کے باوجود خلیل زاد افغان تنازع کے حل کے لیے بین الاقوامی اتفاق رائے کے حصول کے لیے ایک بار پھر متحرک ہیں۔ خلیل زاد اتوار کو کابل کےدورے کے بعد پیر کو اسلام آباد پہنچے۔ لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ کیا انہوں نے اس بارے میں طالبان کے ساتھ ملاقات کی ہے یا نہیں۔

افغان حکومت کی قومی سلامتی کے مشیر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر طالبان کسی امن سمجھوتے تک نہیں پہنچ سکتے۔

انہوں نے کہا امن مذاکرات کا اس وقت تک کوئی پائیدار نتیجہ سامنے نہیں آئے گا جب تک پاکستان اپنی مبینہ مداخلت کو روک نہیں دیتا۔

پاکستان کی طرف سے افغان قومی سلامتی کے مشیر کے بیان پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم، پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے، جبکہ طالبان کا بھی موقف رہا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی ایلچی نے اتوار کو کابل کا دورہ کیا تھا جہاں انہون نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔

تاہم، افغان قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ امریکی ایلچی کی افغان قیادت سے ہونے والی بات چیت میں افغان امن عمل پر کوئی بات نہیں ہوئی، بلکہ ان کے بقول، امریکی سفارت کار کے دورے کا تعلق کابل میں واقع امریکی یونیورسٹی کے اغوا ہونے والے دو پروفیسروں کو بازیاب کروانے کے معاملے سے تھا۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت امریکہ یونیورسٹی کے مغوی پروفیسروں کی رہائی کے لیے امریکہ سے تعاون کرنے پر تیار ہے۔

افغان قومی سلامتی کے مشیر سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا حقانی نیٹ ورک کے سربراہ کے بھائی انس حقانی کی رہائی کے بدلے مغوی پروفیسروں کی رہائی کے معاملے پر کیا کوئی بات ہو رہی ہے تو انہوں نے کہ اس کی تصدیق کیے بغیر کہا کہ قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بات چیت ابھی ابتدائی مرحلے پر ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ افغان حکومت کی درخواست پر چین نے بین الاٖفغان امن بات چیت کو افغان صدارتی انتخاب کے نتائج تک ملتوی کر دیا ہے۔ یادر ہے کہ قبل ازیں افغان طالبان نے یہ کہا تھا کہ چین نے بین الافغان مذاکرات میں شرکت کے لیے انہیں بیجنگ آنے کی دعوت دی تھی۔ تاہم، ابھی چین کی طرف سے ان مذاکرات کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔

ادھر، صوبہ تخار میں گذشتہ دو دن کے دوران افغان سیکورٹی فورسز نے ملک کے دو صوبوں میں کارروائی کی ہے، جس دوران طالبان نے کئی محفوظ ٹھکانوں سے پسپائی اختیار کر لی ہے۔

افغان سیکورٹی افواج کے ذرائع کے مطابق، جمعے کے روز تاجکستان کی سرحد کے ساتھ دریائے آمو کے کنارے پر کئی دنوں تک جاری کارروائی کے بعد صوبہ تخار کے درقند ضلعے پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اس علاقے پر دو ماہ قبل طالبان نے قبضہ جما لیا تھا۔

ذرائع کے مطابق، افغان افواج نے صوبہ بغلان میں دہانہ غوری کے ضلعے پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، افغان سیکورٹی فورسز نے صوبہ تخار کے وہ محفوظ ٹھکانے واپس لے لیے ہیں جن پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم، لڑائی کے دوران، افغان سیکورٹی افواج کے 11 اہلکار ہلاک جب کہ 10 زخمی ہوگئے تھے۔ یہ لڑائی اشکمیش ضلعے میں لڑی گئی، جو صوبہ تخار میں واقع ہے۔ ادھر طالبان نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔

دوسری جانب، منگل کے روز برسلز میں نیٹو کے وزرائے دفاع کے اجلاس سے متعلق خبروں میں بتایا گیا ہے کہ سیکریٹری جنرل، اسٹولٹن برگ نے افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے کردار کو سراہا ہے۔ اجلاس میں افغانستان میں خصوصی طور پر دھیان ’ریزولوٹ سپورٹ مشن‘ کے کام پر مرتکز رہا ہے۔

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں دورہ کابل کے دوران انھیں افغان قومی سلامتی فورسز کے کام سے آگاہ ہونے کا تفصیلی موقع ملا۔ انھوں نے ایک مشق کے دوران، کچھ افغان کمانڈوز اور فوجیوں سے ملاقات کی اور ملک کے دفاع میں ان کی خدمات کی تعریف کی۔

مارک ایسپر نے کہا کہ گذشتہ سال کے دوران، افغانستان سے 2000 امریکی فوجی ملک واپس چلے گئے ہیں۔ اس ضمن میں، انھوں نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو کی افواج کے سربراہ، جنرل اسکاٹ ملر کا ذکر کیا۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی تعداد تقریباً 12000 ہے۔

اجلاس میں افغان صدارتی ترجمان، صدیق صدیدی نے تربیت، مشاورت اور اعانت کے کام میں ’رزولوٹ سپورٹ مشن‘ کی جانب سے افغان فورسز کی مدد جاری رکھنے پر نیٹو کی اعانت اور عزم کو سراہا۔

XS
SM
MD
LG