رسائی کے لنکس

لویہ جرگہ کی سفارش: افغان صدر کا بقیہ 400 طالبان قیدی رہا کرنے کا اعلان


صدر غنی نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ بھی لویہ جرگے کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے ملک میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے جنگ بندی کا اعلان کریں۔
صدر غنی نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ بھی لویہ جرگے کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے ملک میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے جنگ بندی کا اعلان کریں۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اتوار کو مشاورتی لویہ جرگہ کی سفارش پر ان 400 طالبان قیدیون کو رہا کرنے پر اتفاق کر لیا ہے جن کی رہائی میں تعطل کی وجہ سے بین الافغان امن مذاکرات میں تاخیر ہو رہی تھی۔

صدر غنی نے اتوار کو کابل میں تین روزہ لویہ جرگے کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ لویہ جرگے کی سفارش پر 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کے حکم نامے دستخط کریں گے، یہ وہی طالبان قیدی ہیں، جن کے بارے میں صدر غنی نے اس سے قبل کہا تھا کہ ان کو رہا کرنا ان کے اختیار میں نہیں تھا۔

افغان صدر کا یہ بیان اتوار کو کابل میں ہونے لویہ جرگے کے تین روز اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے 25 سفارشات کے بعد سامنے آیا ہے جس میں لویہ جرگہ نے ان 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کی بھی سفارش کی ہے جن کی رہائی پر تنازع تھا۔

صدر غنی نے لویہ جرگہ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغان عوام کو مخاطب کرکے کہا کہ میں رہائی کے حکم نامے پر آج دستخط کر دوں گا۔ اس حکم نامے پر میں دستخط کرنے کا مجاز نہیں تھا کیوں کہ ایسا کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا۔

افغان صدر نے کہا کہ اب لویہ جرگہ کے اتفاق رائے اور آپ کے اخلاقی فیصلے کے بعد ان 400 طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا جائےگا۔

یاد رہے کہ رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات سے پہلے افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنا تھا جب کہ طالبان نے بھی اپنی قید میں موجود افغان حکومت کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کرنا تھا۔

طالبان کے مطابق انہوں نے اپنی قید میں موجود تمام قیدی رہا کر دیے ہیں جب کہ افغان حکومت بھی طالبان کے پانچ ہزار کے قریب قیدی رہا کر چکی ہے لیکن 400 قیدیوں کے معاملے پر تعطل پیدا ہو گیا تھا۔

صدر غنی کا موقف تھا کہ یہ 400 قیدی بعض سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں اس لیے انہیں رہا کرنے کا اختیار انہیں نہیں ہے لیکن اب لویہ جرگہ کی سفارش کے بعد طالبان قیدیوں کی رہائی ممکن ہو جائے گی جس کے بعد بین الافغان مذاکرات کی راہ میں حال بڑی رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔

تین روز جرگے کے اختتام پر جاری ہونے والی 25 سفارشات پر مشتمل اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امن مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے، ملک میں خونریزی روکنے اور افغان عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی پر اتفاق کیا گیا ہے۔

جرگے نے حکومت کو دی گئی سفارشات میں واضح کیا ہے کہ اگر ان 400 قیدیوں میں کوئی غیر ملکی قیدی شامل ہے تو ان کی رہائی سے پہلے متعلقہ ملک کی حکومت کو مطلع کیا جائے کہ اس ملک کے شہری کا نام طالبان کی فہرست میں شامل ہے۔

جرگہ نے یہ بھی واضح کیا کہ طالبان قیدیوں کی کارروائیوں کے متاثرین کا ان کی رہائی کے خلاف اپیل کرنے کا حق برقرار رہے گا۔

جرگے نے طالبان پر بھی زور دیا کہ اپنی قید میں موجود افغان شہریوں اور افغان سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو رہا کریں اور ملک جنگ بندی کا اعلان کریں۔

صدر غنی نے بھی طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ بھی جرگے کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے ملک میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے جنگ بندی کا اعلان کریں۔

صدر غنی نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برداری نے انہیں یقینی دہانی کرائی ہے کہ طالبان کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ نہیں ہے۔عالمی برادری نے خواتین کے حقوق سمیت گزشتہ 20 سال کی کامیابیوں کی حمایت کی ہے۔

سابق صدر حامد کرزئی اور قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے بھی صدر غنی کے امن اقدامات اور جرگے کے اعلامیے کی حمایت کی ہے۔

افغان مشاورتی جرگے کے اعلامیے اور صدر غنی کی بیان پر تاحال طالبان کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن طالبان ترجمان سہل شاہین پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر افغان حکومت تمام قیدیوں کو رہا کر دیتی ہے تو وہ بین الافغان مذاکرات میں شامل ہونے پر تیار ہیں۔

یاد رہے کہ طالبان کے لگ بھگ 400 قیدیوں کی رہائی کے بارے میں فیصلے میں تاخیر بین الافغان مذاکرات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ افغان حکومت طالبان کی طرف سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق باقی تمام قیدیوں کو رہا کر چکی ہے۔ البتہ افغان حکومت ان 400 قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں تھی کیوں کہ صدر اشرف غنی کا موقف تھا کہ وہ انہیں رہا کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ان میں اکثر مبینہ طور پر سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔

دوسری طرف امریکہ بھی قیدیوں کی رہائی کے عمل کو جلد مکمل کرنے پر زور دیتا آ رہا ہے تاکہ بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو سکیں۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی قیدیوں کی رہائی پر زور دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی ایک غیر مقبول عمل ہے لیکن اس کے نتائج افغانستان اور اس کے دوست ممالک کے لیے اہم ثابت ہوں گے۔

جمعرات کو ایک بیان میں مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ تشدد میں کمی اور براہِ راست مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں امن قائم اور طویل جنگ کا خاتمہ ہو گا۔

پاکستان کا خیر مقدم

پاکستان نے بھی افغانستان کے لویہ جرگہ کی طرف سے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کی سفارش کا خیر مقدم کیا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کے اقدام پر عمل درآمد سے بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ کے مطابق پاکستان اس بات پر زور دیتا آرہا ہے کہ افغان قیادت اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں جامع، وسیع البنیاد اور جامع سیاسی تصفیے کے حصول کے لیے بین الافغان مذاکرات کا آغاز کرے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے تواتر سے افغان قیادت اور ان کی سر پرستی میں امن و مصالحت کے عمل کی حمایت کی ہے۔ بین الاقوامی برداری افغان امن عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کو تسلیم کر چکی ہے۔

افغان قانون ساز اور لویہ جرگہ کے معاون کمال صافی

لویہ جرگے کے معاون اور افغان قانون ساز کمال صافی نے کابل سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ لویہ جرگے کے شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 20 سالوں کے دوران مختلف شعبوں میں ہونے والی پیش رفت اور کامیابیوں کو برقرار رکھا جائے۔

ان کے بقول لویہ جرگہ میں شامل بعض شرکا نے یہ بھی تجویز دی کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اگر ایک ایسے پائیدار امن کا قیام ممکن ہو، جو ملک میں امن و خوش حالی کا ضامن بنے تو اس کے لیے اگر کسی وقت آئین میں ترمیم کی ضرورت ہو تو اس پر بھی عوام کا اتفاق رائے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تاہم کمال صافی نے کہا کہ لویہ جرگہ میں ایک بڑی اکثریت نے طالبان قیدیوں کی رہائی سمیت 25 نکاتی سفارشات کی حمایت کی ہے۔ لیکن ان کے بقول لویہ جرگے میں شریک تقریباً 10 فیصد عمائدین نے ان کی حمایت نہیں کی۔

ان کے بقول یہ وہ عمائدین تھے جنہوں نے افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ کے دوران اپنے عزیز کھو دیئے ہیں۔ انہوں نے طالبان قیدیوں کی رہائی کی حمایت نہیں کی، لیکن ان کے بقول لویہ جرگے میں شریک لگ بھگ 90 فیصد عمائدین نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے اقدام کی حمایت کی ہے۔

کمال صافی کا کہنا تھا کہ لویہ جرگے کی لگ بھگ 90 فیصد اکثریت نے لویہ جرگہ کی 25 سفارشات کی حمایت کی ہے جن میں 400 قیدوں کی رہائی کی سفارش بھی شامل ہے۔

افغان قانون ساز کا کہنا تھا کہ اب یہ قوی امکان پیدا ہو گیا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد بین لافغان مذاکرات جلد شروع ہو جائیں گے اور ان کے بقول افغان حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے مذاکراتی ٹیم کی تشکیل سمیت کئی انتظامی امور اور دیگر لوازمات مکمل کر لیے گئے ہیں۔

بین الافغان مذاکرت جلد شروع ہو سکتے ہیں

دوسری طرف افغان امور کے ماہر اور صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ لویہ جرگے کے اجلاس کے بعد طالبان قیدیوں کی رہائی کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے۔ اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان قیدیوں معاملے پر پیدا ہونے والے تعطل کی وجہ سے امن عمل آگے نہیں بڑھ رہا تھا اور طالبان بین الافغان مذاکرات میں اس وجہ سے شامل ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

طاہر خلیل کا کہنا تھا کہ اب طالبان کے باقی ماندہ 400 قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ ہو گیا ہے تو اس کے بعد طالبان کے پاس بین الافغان مذاکرات میں شامل نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں رہا۔

طاہرخان کا کہنا تھا کہ ابھی تک طالبان کے ترجمان کا کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، لیکن ان کے بقول طالبان ترجمان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے تمام قیدیوں کی رہائی کے ایک ہفتے کے اندر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی، لویہ جرگے کے افتتاحی اجلاس میں یہ کہہ چکے ہیں کہ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے تین روز کے اندر بات چیت میں شامل ہو سکتے ہیں۔

طاہر خان کے بقول اب بین الافغان مذاکرات کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور طالبان کے 400 قیدیوں کی رہائی کے چند روز کے اندر امن بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔

تاہم ابھی تک طالبان اور افغان حکومت کی طرف سے بین الافغان مذاکرات کے بارے میں کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا کہ یہ بات چیت کب اور کہاں شروع ہو گی۔ لیکن یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بین الافغان مذاکرت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہو سکتے ہیں، جہاں طالبان کا سیاسی دفتر واقع ہے، اور دوحہ ہی وہ مقام ہے جہاں رواں سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔

XS
SM
MD
LG