رسائی کے لنکس

افغانستان: گھر سے بھاگنے والی خواتین کے حقوق کا تحفظ


مارچ میں انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ افغان جیلوں میں بند 70 فی صد خواتین جبری شادی یا گھریلوتشدد سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگنے کے جرم کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

افغانستان میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کی کوشش کے نئے اشارے مل رہے ہیں لیکن اس کے نتائج کے بارے میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہومن رائٹس واچ نے اس ہفتے تین سرکاری وزیروں کی جانب سے، جن میں وزیر انصاف حبیب اللہ غالب بھی شامل ہیں، اس اعلانیہ بیان کی تعریف کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عورتوں کا گھر سے فرار ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے افغانستان کے لیے ریسرچر حیدر بر نے وائس آف امریکہ کی دری سروس کو بتایا کہ اب افغان حکومت کو اپنے بیانات کو اپنے عمل کے ذریعے ثابت بھی کرنا چاہیے۔
ان کا کہناتھا کہ اب اگلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، جو یہ ہے گھر سے بھاگنے کی پاداش میں جیل میں پڑی ہوئی خواتین کی رہائی اور پولیس کو خواتین کی گرفتاری سے روکنا، خواتین پر مقدمے چلانا اور اس جرم پر انہیں عدالت کی سزاؤں سے بچایاجائے۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہاہے کہ وزیر انصاف غالب، خواتین کے حقوق کی وزیر حسن بانو غضنفر اور نائب وزیر داخلہ باز محمد یارمند کے پیغامات بہت اہم ہیں۔اور انسانی حقوق کی تنظیم اب یہ دیکھ رہی ہے کہ ان بیانات سے وہ سینکڑوں خواتین کیا فیض پاتی ہیں جو پہلے ہی سے گھر سے بھاگنے کے جرم پر جیل کاٹ رہی ہیں۔

مارچ میں انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ افغان جیلوں میں بند 70 فی صد خواتین، جن کی تعداد چار سوسے پانچ سو کے درمیان ہے، جبری شادی یا گھریلوتشدد سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگنے کے جرم کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

رقیہ اچکزئی ، جوقندھار صوبے میں خواتین کے امور کی نگران ہیں، کہتی ہیں کہ ایک نوجوان خاتون کو جب اپنے گھر واپس بھجوایا گیا تو چندروز کے بعد عہدے داروں کو اس کی قبر ملی۔ اس کی ہلاکت بدستور ایک راز ہے اور پولیس نے اس سلسلے میں کبھی کوئی تحقیق نہیں کی۔
اچکزئی کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کی وزارت ایسی خواتین کے لیے ایک پناہ گاہ تعمیر کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے رقم مختص کی جاچکی ہے۔
XS
SM
MD
LG