رسائی کے لنکس

چار سے پانچ ہزار افغان روزانہ سرحد پار کر کے ایران جا رہے ہیں، امدادی گروپ این آر سی


ایران داخل ہونے والے افغانوں کا ایک قافلہ۔ 19 اگست، 2021ء (فائل فوٹو)
ایران داخل ہونے والے افغانوں کا ایک قافلہ۔ 19 اگست، 2021ء (فائل فوٹو)

اگست میں جب سے طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے، یومیہ 4،000 سے 5،000 افغان سرحد پار کر کے ایران میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ بات مہاجرین سے متعلق ناروے کے ایک امدادی ادارے (این آر سی) نے بتائی ہے، جس کا کہنا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو موسم سرما کے دوران لاکھوں کے تعداد میں مزید افغان مہاجرین ایران پہنچ چکے ہوں گے۔

ادارے نے بتایا ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد سے اب تک 300،000 افغان باشندے سرحد پار کر کے ایران جا چکے ہیں۔ ادارے نے ایران کے لیے مزید بین الاقوامی امداد کی اپیل کی ہے، کیونکہ، رپورٹ کے مطابق، پہلے ہی ایران کو اپنے ملکی حالات کی بنا پر معاشی بحران درپیش ہے۔

ایک بیان میں 'نیشنل رفیوجی کونسل (این آر سی)' کے سیکرٹری جنرل، جان ایگلینڈ نے کہا ہے کہ ''بین الاقوامی برادری کی جانب سے ملنے والی معمولی درجے کی امداد کے ساتھ ایران متعدد افغان مہاجرین کی میزبانی نہیں کر پائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ''ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر افغانستان کے اندر اور ایران جیسے ہمسایہ ملکوں میں امداد کی سطح میں اضافہ کیا جائے، اس سے پہلے کہ موسم سرما میں مزید شدت آئے۔

ایسے میں جب کہ افغانستان سے امریکی فوج کے آخری دستوں کا انخلا ہو رہا تھا، طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا جس کے نتیجے میں مغربی ملکوں کی حمایت سے چلنے والی افغان حکومت کے سابق اہل کار اور وہ افغان جن پر طالبان کا خوف طاری تھا وہ قافلہ در قافلہ ملک سے بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئے۔

بین الاقوامی امداد اچانک بند ہونے اور افغان مرکزی بینک کے بیرون ملک جمع اثاثے منجمد ہونے کے نتیجے میں افغانستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے، جس کے ساتھ مہاجرین کا بحران بڑھنے کا خوف لاحق ہے، جسے ماہرین 2015ء میں شام سے بے دخل ہونے والوں کی یورپ کی جانب ہجرت سے مشابہہ قرار دیتے ہیں۔

اس وقت افغانستان سے بے دخل ہونے والے افراد کی کل تعداد 50 لاکھ بتائی جاتی ہے، جس میں سے تقریباً 90 فی صد باشندے ایران اور پاکستان میں ہیں، حالانکہ سارے افراد مہاجر شمار نہیں کیے گئے۔

ایگلینڈ کے بقول، ''گزشتہ چار عشروں کے دوران بے دخل ہونے والے افغانوں کو پناہ دینے پر ہم ایران کے معترف ہیں۔ لیکن اب بین الاقوامی برادری کو آگے بڑھ کر افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کی مدد کرنی ہو گی''۔

اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ دو کروڑ 28 لاکھ افراد کو، جو افغانستان کی تین کروڑ 90 لاکھ کی آبادی کے نصف سے زائد ہیں، انھیں خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے، جب کہ دو ماہ قبل یہ تعداد ایک کروڑ 40 لاکھ تھی۔

(اس خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG