رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں القاعدہ اور داعش کی موجودگی، حقیقت یا فسانہ؟


کچھ کشمیری نوجوان القاعدہ کا پرچیم لہرا رہے ہیں۔فائل فوٹو
کچھ کشمیری نوجوان القاعدہ کا پرچیم لہرا رہے ہیں۔فائل فوٹو

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے علیحدگی کے لیے جاری مسلح تحریک کو القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ یا داعش کی نہج پر چلانے کی کوششوں پر حکومتی عہدیدار اور بھارت نواز کئی سیاسی جماعتیں تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت ان کی اپنی اور مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر میں چلائی جانے والی تحریک ہے جس کا کوئی بین الاقوامی ایجنڈا نہیں ہے، لہٰذا دولت اسلامیہ یا القاعدہ جیسی تنظیموں کا یہاں کوئی وجود ہے اور نہ ہی اسے کشمیر کے آزادی پسند عوام قبول کریں گے۔

مئی کے دوسرے ہفتے میں شورش زدہ ریاست کے جنوبی ضلع شوپیان میں ایک جھڑپ کے دوران بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے ایک مقامی عسکریت پسند اشفاق احمد صوفی کو ہلاک کیے جانے کے بعد دولتِ اسلامیہ سے وابستہ نیوز ایجنسی ’اعماق‘ نے ولایتِ ہند یا بھارت میں اپنا ایک صوبہ قائم کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن بھارتی زیر انتظام کشمیر کے عہدیداروں نے اسے محض ایک پراپیگنڈہ قرار دے دیا، جس کا مقصد ان کے بقول عراق اور شام میں اس گروپ کے جنگجوؤں کی پسپائی کے سبب اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانا ہے۔

عہدیداروں کے مطابق وادئ کشمیر میں گزشتہ دو برس کے دوران دولت اسلامیہ کے ساتھ صرف سات مقامی نوجوان باضابطہ طور پر وابستہ ہوئے۔ ان میں سے 6 کو سیکورٹی فورسز نے مختلف مقامات پر مسلح مقابلوں میں ہلاک کر دیا جب کہ عہدیداروں کے دعویٰ کے مطابق ان کا ساتواں ساتھی بھارتی کشمیر میں سرگرم، ایک اور عسکری تنظیم میں شامل ہو گیا ہے۔ تاہم عہدیدار یہ اعتراف کرتے ہیں کہ دولت اسلامیہ کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھنے والے نوجوان وادی میں موجود ہیں اور دوسرے کئی نوجوانوں کو انتہا پسندی کے راستے پر ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

کچھ عرصے سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بعض مقامات پر بالخصوص سری نگر کی تاریخی جامع مسجد کے باہر کیے گئے مظاہروں کے دوران بعض اوقات نقاب پوشوں کی طرف سے داعش کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔

دسمبر 2018 کے آخری ہفتے میں نقاب پوش نوجوانوں کے ایک گروپ نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کے بعد داخل ہو کر دولتِ اسلامیہ کا پرچم لہرایا تھا اور پھر نعرے لگاتے ہوئے کچھ دیر کے لیے مسجد کی محراب اور منبر پر بھی قابض رہے تھے۔ بعد ازاں اس واقعے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی چیزوں کا مقصد یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ مسلم اکژیتی وادئ کشمیر میں داعش کی آمد کے آثار کے موجود ہیں۔

القاعدہ نے 2017 میں بھارت میں ’انصار غزوۃ الہند‘ کے نام سے اپنی ایک شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کا سربراہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین سے علیحدہ ہونے والے ایک مقامی عسکری کمانڈر ذاکر رشید بٹ عرف ذاکر موسیٰ کو مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ہفتے جنوبی ضلع پُلوامہ کے ترال علاقے میں ایک جھڑپ میں ذاکر موسیٰ کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور اس کی ہلاکت کے ساتھ ہی ’انصار غزوۃ الہند‘ کی نہ صرف بنیادیں ہل گئی ہیں بلکہ اس نظریے کا بھی اب تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے۔

ریاستی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کے مطابق ذاکر موسیٰ نے ریاست میں جاری عسکریت پسندی میں خلافت قائم کرنے کا جو ایک نیا تصور متعارف کرایا تھا وہ اس کی ہلاکت کے ساتھ ہی دفن ہو گیا ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ تھا جو کسی کے لیے بھی کشمیر کے اندر اور نہ اس کے باہر قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔

پولیس کے سربراہ نے مزید کہا کہ ذاکر موسیٰ نے لوگوں کو اس نظریے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ انصار غزوۃ الہند سے منسلک عسکریت پسندوں کا پہلے ہی خاتمہ کیا جا چکا تھا۔ صرف ذاکر موسیٰ ہی باقی بچا تھا۔ سیکورٹی فورسز نے اُس کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔

اس سے پہلے دلباغ سنگھ نے سری نگر کی جامع مسجد میں داعش کا جھنڈا لہرانے کے واقعے پر اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ ملک دشمن اور سماج دشمن عناصر کی طرف سے نوجوانوں کے ایک طبقے کو حتی الامکان انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے کی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کشمیری معاشرہ ایک بالغ نظر اور سیکولر معاشرہ ہے جہاں تاہم تمام عبادت گاہوں اور مذاہب کی تعظیم کی جاتی ہے لیکن بعض عناصر اس فضا کو خراب کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، جیسا کہ آپ نے گزشتہ دنوں میں دیکھا۔

بھارت کی مختلف سیاسی جماعتوں نے جامع مسجد کی بے حرمتی کے واقعہ کی مذمت کی تھی جن میں ریاست کی علیحدگی پسند اور بھارت نواز سیاسی جماعتیں، سماجی اور تاجر انجمنیں اور سول سوسائٹی گروپس بھی شامل تھے۔ کئی عسکری تنظیموں نے بھی واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریاست میں داعش کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔

سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت کا رُخ بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کشمیر میں حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے جاری تحریک خالصتاً کشمیری عوام کی اپنی تحریک ہے اور اس کا کوئی بین الاقوامی ایجنڈا نہیں ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا بھی یہ کہنا ہے کہ القاعدہ یا دولتِ اسلامیہ ابھی تک ریاست میں اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں اور نہ ہی بھارت سے ناراض مقامی آبادی یا عسکریت پسندی کی طرف مائل نوجوانوں کی قابلِ ذکر تعداد کو اپنا ہمنوا بنا سکی ہیں۔

تجزیہ کار اور سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبہ قانون اور بین الاقوامی مطالعات کے پروفیسر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں القاعدہ یا دولتِ اسلامیہ کے نظریات سے متاثرہ افراد کی تعداد قابل ذکر نہیں ہے۔ جہاں تک عسکریت پسندوں کی صف میں شامل نوجوانوں کا تعلق ہے تو ان میں سے چند ایک نے ہی ان سے وابستگی کا اظہار کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس تصور کو یہاں متعارف کرانے کے بعد اسے پھیلانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں نے ذاکر موسیٰ اور اُن کے ساتھیوں کی صرف اس لیے حمایت کی تھی کیونکہ وہ معروف عسکری تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ رہ چکے تھے اور اس کی قیادت سے بعض امور پر اختلاف کی بناء پر الگ ہو گئے تھے۔

شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ کشمیر 72 سال پرانا مسئلہ ہے۔ کشمیر میں جاری تحریک کی بنیاد پونچھ میں مہاراجہ ہری سنگھ کی مطلق العنان حکومت کے خلاف مقامی مسلمانوں کی طرف سے علمِ بغاوت بلند کیے جانے کے ساتھ ہی پڑ گئی تھی۔

سن 1990 میں ریاست کے مقامی مسلمانوں نے بندوق تھامی اور بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اُس وقت القاعدہ وجود میں آئی تھی اور نہ ہی دولتِ اسلامیہ۔ لہٰذا کشمیر میں جاری تحریک کوئی نئی تحریک ہے اور نہ ہی یہ نظریاتی طور پر القاعدہ یا دولتِ اسلامیہ سے مطابقت رکھتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سارے معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یا تو کوئی بڑی طاقت کشمیر میں، خاص طور پر دولتِ اسلامیہ کی موجودگی کا ہوا کھڑا کر کے اپنی مداخلت کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتی ہے یا پھر نئی دہلی دنیا پر یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ریاست میں جاری تحریکِ مزاحمت دولتِ اسلامیہ کے نظریے سے مطابقت رکھتی ہے اور اس طرح وہ کشمیریوں کو دبانے کے لیے فوجی کارروائیوں کا جواز پیدا کرنا چاہتی ہے، لیکن اس ساری صورت حال کا مثبت پہلو یہ ہے کہ کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کی واضح اکثریت نے ان تنظیموں کو کوئی اہمیت دی ہے اور نہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں نے ان نظریات کو قابل قبول قرار دیا ہے اور عام کشمیری مسلمان بھی انہیں خاطر میں نہیں لائے۔

بھارتی اخبار اکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال مارچ میں امریکی قیادت کی اتحادی فورسز نے شام میں دولتِ اسلامیہ سے وابستہ جن 1500 کے قریب جنگجوؤں کو گرفتار کیا تھا ان میں ایک کشمیری نوجوان عادل احمد وڈو بھی شامل ہے اور اب اس کے والدین نے بھارتی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کے بیٹے کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے اقدامات کرے۔ سری نگر کے جواہر نگر علاقے سے تعلق رکھنے والے عادل کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اُس نے آسٹریلیا کی کوئنز یونیورسٹی میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہیں 2013 میں یہ اطلاع دی تھی کہ وہ ترکی پہنچ گیا ہے جہاں اُسے ایک غیر سرکاری کمپنی میں ایک اچھی نوکری مل گئی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG