رسائی کے لنکس

پاکستان اور بھارت بدترین فضائی آلودگی والے پانچ ممالک میں شامل


نئی دہلی میں سماگ، اے پی
نئی دہلی میں سماگ، اے پی

فضائی آلودگی پر نظر رکھنے والی سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی، آئی کیو ائیر نے منگل کے روز اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مشرقی، جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیائی ممالک کی فضا میں پی ایم 2.5 کے ذرات دنیا بھر میں آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت بھی پانچ سب سے زیادہ بدترین فضائی آلودگی والے ممالک میں شامل ہیں۔

پی ایم 2.5 فضا میں ایک ذرہ ہے جس کا قطر ایک میٹر کا ایک لاکھواں حصہ یا اس سے بھی کم ہے۔ یہ ذرہ انسانی پھیپھڑوں میں داخل ہو کر، خون میں شامل ہوجاتا ہے۔

آئی کیو ائیر کے شمالی امریکہ کی ایگزیکٹو افسر گلوری ڈالفن ہامس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’فضا کو آلودہ کرنے والے دوسرے ذرات کے مقابلے میں یہ ذرہ سب سے زیادہ ہلاکت خیز ہے''۔

کمپنی کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق بنگلہ دیش فضا میں پی ایم 2.5 کی سطح کے لحاظ سے دنیا کا سب سے آلودہ ملک ہے جب کہ نئی دہلی دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں سب سے آلودہ شہر ہے۔

اس کے علاوہ چاڈ، پاکستان اور تاجکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے بعد فضائی آلودگی کےلحاظ سے دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ڈھاکہ، چاڈ کا شہر این ڈجامینا، تاجکستان کا دوشنبے، اومان کا مسقط دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔

اس آلودگی کی وجہ سے ان ممالک کے شہریوں میں بڑے پیمانے پر سینے میں درد، گلا خراب، آنکھوں میں درد کی شکایات عام ہیں۔

دنیا کی بہترین فضا کا ذکر کریں تو شمال مغربی بحر اوقیانوس میں نیو کلاڈونیا کی فرانسیسی علاقے شامل ہیں۔ یہاں نومیا کا شہر دنیا کے بہترین فضا والے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ امریکی ورجن آئی لینڈز، پورٹو ریکو، کیپ ورڈا، افریقہ کے ساتھ اٹلانٹک کے ساحل بھی ان میں شامل ہیں۔

لاہور میں اسموگ کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:11 0:00

دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے کچھ علاقوں میں مانیٹیرنگ کی صلاحیتیں موجود نہیں ہیں۔

ڈالفن ہامس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم نے تین ایسے علاقے دیکھے ہیں جن کی اس ڈیٹا میں نمائندگی کم ہے، جن میں افریقہ، مشرق وسطی اور جنوبی امریکہ کے علاقے شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے مانیٹیرنگ کی صلاحیتیں بہتر ہو رہی ہیں اس کی وجہ سے نئے ممالک ان کی فہرست میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں چاڈ اور تاجکستان بھی شامل ہیں جو اس برس سرفہرست رہے جب کہ پچھلے برس وہ ان کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔

ڈالفن کا کہنا تھا کہ فضائی آلودگی میں اضافے کی وجہ جنگلات میں لگنے والی آگ بھی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے پچھلے برس ستمبر میں نئی ہدایات جاری کی تھیں جن کے مطابق پی ایم 2.5 کی سالانہ کھپت کو کم کرتے ہوئے اسے پانچ مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر قرار دیا تھا۔ ادارے کے مطابق اگر ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو ہر برس لاکھوں ہلاکتوں سے بچا جا سکے گا۔

خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بعض ممالک کے لیے نئی ہدایات پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوگا جو پہلے ہی سابقہ ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

فضائی آلودگی کے معاشی نقصانات بھی ہیں۔ گرین پیس انوائرمینٹل گروپ کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس کی وجہ سے دنیا کی مجموعی قومی پیداوار میں تین سے چار فیصد کا نقصان ہو رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG