رسائی کے لنکس

روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اب بھی جاری ہے: برمی روہنگیا تنظیم


کولکتہ سے تقریباً 55 کلومیٹر جنوب میں، باروئی پور گاؤں کے قریب ایک روہنگیا پناہ گزین خاتون ایک عارضی پناہ گاہ میں کھانا بنا رہی ے۔
کولکتہ سے تقریباً 55 کلومیٹر جنوب میں، باروئی پور گاؤں کے قریب ایک روہنگیا پناہ گزین خاتون ایک عارضی پناہ گاہ میں کھانا بنا رہی ے۔

ایک روہنگیا تنظیم کے سربراہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پرمیانمار میں روہنگیا زکے خلاف نسل کشی کو روکے۔برمی روہنگیا آرگنائزیشن (بروک) یو کے، کے صدر تن کھن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ میانمار کے صوبے راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کونسل کشی کے ایک ایسے سلسلے کا سامنا ہے جس سے ان کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔

اگست اور ستمبر کے درمیان لاکھوں ر وہنگیا زبے گھر ہوئے اور شواہد ان سے لگتا ہے کہ 2016-17 کےوہی حالات اور واقعات دہرائے جا رہے ہیں جب ظلم و ستم کے شکار لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو ان کے ملک میانمار سے نکال دیا گیا تھا۔

روہنگیا مہاجرین 25 اگست 2022 کو بنگلہ دیش کے ضلع کاکس بازار کے اوکھیا میں کٹوپالونگ روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں میانمار سے بنگلہ دیش جانے کی پانچویں برسی کے موقع پر ایک اجتماع کے دوران رو رہے ہیں۔
روہنگیا مہاجرین 25 اگست 2022 کو بنگلہ دیش کے ضلع کاکس بازار کے اوکھیا میں کٹوپالونگ روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں میانمار سے بنگلہ دیش جانے کی پانچویں برسی کے موقع پر ایک اجتماع کے دوران رو رہے ہیں۔

جون میں، نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اس نے میانمار کے حکام کی جانب سے نسل پرستی، ظلم و ستم اور قید میں رکھنے جیسے "انسانیت کے منافی جرائم کی تفصیل بیان کی ہے جس نے روہنگیا اقلیت کو ان کی آزادی سے محروم کر دیا اور ان کی زندگی اور معاش کو خطرے میں ڈال دیا۔ "

روہنگیا مسلمانوں کی 'نسل کشی' کی داستان
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:01 0:00

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق ایک دہائی سے راکھین میں ایک لاکھ 35 ہزار سے زیادہ روہنگیا اور کمان مسلمانوں کو من مانے طور پر غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا گیا ہے۔

برمی روہنگیا آرگنائزیشن بروک نے 2 دسمبر کو "ناقابل تصورکو روکیے" کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس سے ایک ہفتہ پہلے میانمار سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کو ان مطالبات کی تعمیل پر رپورٹ کرے گاجوتقریباً تین سال قبل عدالت نے اس ملک سے کیے تھے۔

جنوری 2020 میں، عدالت نے میانمار کو حکم دیا تھاکہ وہ اپنی سرزمین پر روہنگیا اقلیت کے خلاف جاری نسل کشی کو روکنے کے لیے ایسے تمام اقدامات کرے جن میں تباہی اور بر بادی کو روکنا اورمبینہ کارروائیوں سے متعلق شواہد کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل تھا۔

روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو نسل کشی قرار دینے کا مطالبہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:51 0:00

حکم نامے کے تحت، میانمار کو ہر چھ ماہ بعد آئی سی جے کو ان تمام اقدامات کے بارے میں اس وقت تک رپورٹ پیش کرنے کی ضرورت تھی جب تک کہ عدالت اس کیس کا حتمی فیصلہ نہیں کر دیتی، جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

عدالت کے حکم کی تعمیل میں، میانمار نے اپنی پہلی رپورٹ 22 مئی 2020 کو اور دوسری رپورٹ 23 نومبر 2020 کو پیش کی، جس کے بعد فوج نے آنگ سان سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔

عالمی عدالتِ انصاف کا میانمار سے متعلق فیصلہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:32 0:00

بین الاقوامی عدالت انصاف کی ٹائم لائن کے مطابق، میانمار کی حکومت کی تازہ ترین رپورٹ 23 نومبر 2022 کوپیش کی جانی تھی۔ تاہم نہ تو آئی سی جے اور نہ ہی برمی جنتا نے اس رپورٹ کے بارے میں کچھ بتایا ہے۔

بروک کی حالیہ رپورٹ پر میانمار کی حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے وی او اے نیوز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا ۔

برمی روہنگیا آرگنائزیشن بروک کا دعویٰ ہے کہ میانمار کی فوج اور دیگر ادارے عارضی اقدامات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور نسل کشی جاری ہے۔ رپورٹ میں روہنگیا کے خلاف گزشتہ چھ ماہ کے دوران کی جانے والی سنگین خلاف ورزیوں کو دستاویز کیا گیا ہے، جن میں قتل، جنسی تشدد اور گھروں، دیہاتوں اور مساجد پر گولہ باری شامل ہے۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد کیا صورتِ حال ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:32 0:00

سینئر جنرل من آنگ ہلینگ کی سربراہی میں فوجی ہنتا نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کے الزامات کی تردید کی ہے۔ اور مارچ 2021 میں، فوج نے آنگ سان سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت سے اقتدار لینےکے بعد،فوجی قیادت کے ترجمان میجر جنرل زاؤ من تون نے کہا تھا کہ "جرائم اہل کاروں نے انفرادی سطح پر کیے ہوں گے۔"

بروک کے صدر تون کھن نے کہا، "یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھے، لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا برطانیہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، اور دیگر ممالک جو بین الاقوامی عدالت انصاف کےکیس میں شامل رہے ہیں، فوری طور پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلائیں تاکہ میانمار کی فوج کی جانب سے عدالت کے فیصلےپر عمل کرنے میں ناکامی پر بات کی جا سکے۔

" اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے وی او اے نیوز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

(وائس آف امریکہ کی انگین نینگن کی رپورٹ سے ماخوذ)

XS
SM
MD
LG