رسائی کے لنکس

بلووٴں اور کرونا پر لکھنے والے صحافیوں، کارکنوں کو بھارت میں داخلے کی اجازت کیوں نہیں ملی؟


بھارت میں شہریت کے قانون کے خلاف شہری احتجاج کر رہے ہیں (فائل۔ رائٹرز)
بھارت میں شہریت کے قانون کے خلاف شہری احتجاج کر رہے ہیں (فائل۔ رائٹرز)

واشنگٹن ڈی سی۔ انگد سنگھ ایک بھارتی نژاد امریکی صحافی ہیں، جو مختلف موضوعات پر وائس نیوز کے لئے دستاویزی فلمیں بناتے ہیں۔ ان کے دادا، دادی اور زیادہ تر عزیز، بھارت میں ہی رہتے ہیں، گزشتہ ماہ جب انگد ان سے ملنے کے لئے نئی دہلی پہنچے تو بھارتی امیگریشن حکام نےانہیں داخلہ دینے سے انکار کر دیا اور انہیں ایر پورٹ سے ہی واپس امریکہ بھیج دیا گیا۔

آیا بھارت میں عہدہ دار ان کے کام کی وجہ سے ان سے ناراض تھے؟ جیسا کہ ان کی ماں نے اپنی فیس بک پر لکھا کہ ان کے بیٹے کو صحافت میں اس کے کام کی وجہ سے ملک بدر کر دیا گیا، جس میں وہ اکثر نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

انگدسنگھ بھارت سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں میں ہونے والے حالات اور واقعات پر ڈاکومنٹریز بناتے ہیں۔بھارت میں ، کووڈ نائنٹین کی وبا کی دوسری لہر کے دوران، سنگھ نے ایک دستاویزی فلم بنائی تھی ، Inside India’s Covid Hell، جس کے لیے انہیں ایمی ایوارڈز کی نامزدگی ملی تھی۔

ممتاز ماہر قاںون اور انسانی حقوق کے ایک ممتاز ادارے، پیپلز یونین آف سول لبر ٹیز سے وابستہ ڈاکٹر وی سریش کا کہنا ہے کہ بھارت میں بیرون ملک سےآ نے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

’’ جولائی میں برطانوی پروفیسر بریمیر کو جو فن تعمیرات کی ماہر ہیں اور جو چنائی اور روہنگیا پناہ گزینوں کے بارے میں ایک عرصے سے لکھتی رہی ہیں اسی طرح ایر پورٹ سے لوٹا دیا گیا تھا، جبکہ ان کے پاس بھی ویزا تھا اور انہیں ملک میں داخلہ کی اجازت دینے سے انکار کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔‘‘

اس سے پہلے مارچ میں بین الاقوامی شہرت کے مالک،برطانوی انتھروپولوجسٹ فلپو آسیلہ کو، جو کیرالہ کے بارے میں تیس برس سے لکھ رہے ہیں،اور جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ہیں، کیرالہ ایئر پورٹ پر اسی طیارے میں بٹھاکر واپس بھیج دیا گیا جس میں وہ لندن سے ہندوستان پہنچے تھے۔ڈاکٹر آسیلو نے اس کارروائی کے خلاف ایک پٹیشن فائل کی ہے جس کی سماعت اکتوبر میں ہوگی۔

ڈاکٹر سریش نے کہا کہ قابل اعتراض بات یہ ہے کہ دانشوروں، صحافیوں اور ماہرین کو ان کے ملکوں میں ویزا دے دیا جاتا ہے لیکن بھارت پہنچنے کے بعد انہیں طیارے سے ہی ایک بند کمرے میں لے جایا جاتا ہے، اور پھر اسی فلائیٹ سے واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔’وجہ کیا ہے، یہ کس کے احکا مات ہیں،انہیں کچھ بھی نہیں بتا یا جاتا۔ یہ انتہائی غیر منصفانہ ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘

انگد سنگھ، سکھ مت کے پیروکار ہیں۔ وہ ماضی میں کئی بار ہندوستان جا چکے ہیں جہاں انہوں نے ملک کے کسانوں کے سب سے طویل احتجاج، کرونا کی وبا، اکسیجن کی عدم دستیابی سے ہونے والی اموات، کشمیری مسلمانوں کے احتجاج اوران کے گھروں کی مسماری سے لے کر بابری مسجد کی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں تباہی، شاہین باغ کے دھرنے اور "لوجہاد" سمیت ایسے متعدد موضوعات پر دستاویزی فلمیں بنا ئی ہیں، جو بھارت میں اقلیتوں کی صورتحال کو اجاگر کرتی ہیں۔

لیکن ان کا کام بھارت یا جنوبی ایشیا تک محدود نہیں ہے وہ دنیا میں ہونے والے بہت سے واقعات اور تنازعات پر دستاویزی فلمیں بناتے ہیں۔

آٹھ مارچ 2021 کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بھارتی کسانوں کے احتجاج میں شامل کسان خواتین۔ رائٹرز فائل فوٹو
آٹھ مارچ 2021 کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بھارتی کسانوں کے احتجاج میں شامل کسان خواتین۔ رائٹرز فائل فوٹو

ان کی ماں نے جوخود بھی امریکی شہری ہیں لیکن آج کل ہندوستان میں ہیں، وی او اے کو بتایا

"ہم بے صبری سے ان کا استقبال کرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ پہلا پیغام بھیجنے کے پندرہ منٹ بعد، میرے بیٹے نے مجھے ایک بار پھر ٹیکسٹ کیا کہ امیگریشن حکام نے اس کا پاسپورٹ لے لیا ہے، تین گھنٹے بعد، اسے نیویارک جانے والی پرواز میں سوار کر کے امریکہ بھیج دیا گیا۔"

وائس آف امریکہ نے اس بارے میں بھارتی حکومت کا موقف جاننے کے لیے بی جے پی کے کچھ عہدہ داروں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن جواب موصول نہیں ہوا۔ ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرکہا کہ اس بارے میں ڈی پورٹ ہونے والے لوگ ہی یہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا تھی کیونکہ ایسی کوئی کاروائی بلاوجہ نہیں کی جا سکتی۔اور نہ ہی یہ ان کی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔

ڈاکٹر اجے کمار پانڈے لوک جن شکتی پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور قومی ترجمان ہیں اور ایک معروف صحافی اورسپریم کورٹ کے ایڈو کیٹ بھی ہیں۔لوگ جن شکتی پارٹی حکومت کے اتحاد، این ڈی اےکا حصہ ہے۔ وہ اس استدلال سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس طرح ڈی پورٹ کئے جانے کے پیچھے کوئی سیاسی محرکات ہو تے ہیں۔ اور یہ کہ ایسے افراد کو بغیر وجہ بتائے واپس بھیجا جا تا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ویزا دیے جانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ درخواست گزار نے تمام قانونی تقاضے پورے کئے ہیں۔ لیکن صرف بھارت میں ہی نہیں دنیا کے کسی بھی ملک میں کئی بار جب کوئی مسافر ائیر پورٹ پر پہنچتا ہے تواس سے سوال جواب کئے جاتے ہیں اور تب پتہ چلتا ہے کہ سفر کا مقصد وہ نہیں ہے جو ویزا لیتے ہوئے بتایا گیا ہے۔

یعنی ٹورسٹ ویزا پر آنے کا مقصد سیاحت نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔اسی طرح کئی بار پاسپورٹ کی تاریخوں میں گڑبڑ ہوتی ہے، کبھی کوئی صفحہ ہی پھاڑ دیا جاتا ہے۔کئی بار ویزا علاج کے مقصد سے لیا جاتا ہے لیکن "جب وہ ائیر پورٹ پر لینڈ کرتا ہے تو اس کا’ پرپز ‘ کچھ اور ہوتا ہے،"

میں بتا رہا ہوں کہ میں پیتل کا بیوپار کرنے مراد آباد جارہا ہوں لیکن آگے کی فلائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ میری اگلی منزل جموں کشمیر ہے" تو اس صورت میں خود مسافر کے لئے بھی یہ زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ اسے ویزا کےضوابط کی خلاف ورزی پر حراست میں لینے کے بجائے ائیرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا جائے۔ ڈاکٹر اجے کار پانڈے نے کہا۔

تاہم ڈاکٹر سریش کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورتحال میں دو طرح کا نقصان ہو تا ہے، ایک تو مالی اور دوسرا ’جذباتی‘جیسا انگد سنگھ کی ماں اور دوسرے عزیز یہاں ان کے منتظر تھے اور یقینأ ان کو ائیرپورٹ سے ہی واپس بھیج دینا ان کے لئے ایک جذباتی دھچکا تھا۔"آپ اس صدمے کو محسوس کر سکتے ہیں۔" سریش یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں کو اس طرح واپس بھیجا جاتا ہے انہیں ریپیوٹیشن کھونے کا ایک احساس بھی ہوتا ہے۔

بھارت میں انسانی حقوق کے لئے ایمنسٹی انٹر نیشنل کی شب بیداری۔۔ اے پی فوٹو
بھارت میں انسانی حقوق کے لئے ایمنسٹی انٹر نیشنل کی شب بیداری۔۔ اے پی فوٹو

بھارت کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سابق ڈائریکٹر، اوی ناش کمار ، اس وقت انسانی حقوق کے ادارے،سینٹر فار ایکوٹی اسٹڈیز کے اعزازی فیلو کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا:

’’ انگد سنگھ کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کو دیکھتے ہو ئے لگتا ہے کہ انہوں نے (حکومت نے) نے یہ مان لیا ہے اور ٹھان لیا ہے کہ ہمارے بارے میں جو بھی منفی رپورٹنگ کرے گا ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے‘‘۔

ان کے بقول میڈیا کی سطح پر آپ اسے دو طرح دیکھ سکتے ہیں۔جو ہندوستان کے اندر ہے اور جو باہر ہے۔"تو ہندوستان کے اندر میڈیا کو کئی طرح سے تہس نہس کر دیا گیا ہے۔آپ کو مین اسٹریم میڈیا میں رپورٹنگ نظر ہی نہیں آتی۔اب یہ ویب اسپیس میں ہے یا آلٹرنیٹ میڈیا میں، جس کی پہنچ کم ہے۔"

اوی ناش کہتے ہیں کہ انگد سنگھ جیسے لوگ جو انٹر نیشنل پریس میں رپورٹنگ کر رہے ہیں وہ بقول ان کے ایک دکھتی رگ ہیں۔

" اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب حکومت دنیا کو بتا رہی ہو کہ ہم کتنے بڑے ہیں، کتنے سیانے ہو گئے ہیں اور اس وقت آپ کے بارے میں اگر ایسی رپورٹنگ ہوتی ہے جو آپ کوایسا لگتا ہے کہ آپ کے خلاف ہے، خاص طور پر انٹر نیشنل میڈیا میں جہاں ان کی پوری کوشش ہے کہ دکھائیں کہ ہم کتنے قد آور ہو گئے ہیں، "تو مجھے لگتا ہے کہ انہیں محسوس ہو تا ہے کہ اسے(اس تصور کو) کسی طرح کی ٹھیس لگ رہی ہے، چوٹ پہنچ رہی ہے۔"

انگد کی ماں گرمیت کور نے بتایا کہ انگد سنگھ آخری بار دو یا تین سال پہلے ہندوستان آئے تھے اورانہوں نے شاہین باغ کے دھرنے پر ایک دستاویزی فلم بنائی تھی۔2019 اور 2020 میں دہلی کے شاہین باغ محلے میں، خواتین نے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھیں بھارت کے شہریت کےایک ایسے نئے قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے ایک بڑی سڑک کو بلاک کر دیا تھا ۔ وہ قانون مسلمانوں کے سوا، پڑوسی ممالک سے آنے والے دیگرتمام مذاہب کے تارکین وطن کا خیر مقدم کر تا ہے۔

دہلی کے شاہین باغ کے علاقے میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف مسلمان عورتوں کا احتجاج ۔فائل فوٹو
دہلی کے شاہین باغ کے علاقے میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف مسلمان عورتوں کا احتجاج ۔فائل فوٹو

اوی ناش ایمنسٹی انٹنیشنل کے لئے بھارت کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔اس سوال کے جواب میں کہ کیاایمنسٹی کے آواز اٹھانے پر کبھی بھارت حکومت نے اس نوعیت کے کسی واقعے کی کوئی وضاحت کی ہے؟انہوں نے کہا۔

"ایمنسٹی کا طریقہ کار ہے کہ وہ تمام فریقوں کا نقطہ نظر جاننے کی کو شش کرتی ہے۔اب یہ حکام کی مرضی ہے کہ وہ جواب دیں یا نہ دیں۔" اوی ناش نے کہا" مثال کے طور پرمیں آپ کو اپنی تعیناتی کے دوران بتا سکتا ہوں کہ ہم نے دلی کے بلوؤں پر رپورٹ بنائی تھی تو ہم نے حکومت کو باضابطہ طور پر ایک خط بھیج کر ان کا نقطہ نظر جاننا چاہا تھا کہ اس رپورٹ پر ان کا کیا رد عمل ہے۔ جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔"

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے ٹویٹر پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ سنگھ کو واپس بھیجنے کا فیصلہ "انتقام اور ہراساں کرنے کی علامت" ہے۔

انڈین جرنلسٹس یونین کے صدر گیتارتھا پاٹھک نے کہا کہ یہ واقعہ "شدید پریشان کن" ہے اور "سرکاری حکام کے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے جاری رجحان" کا حصہ ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے ٹویٹر پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ سنگھ کو واپس بھیجنے کا فیصلہ "انتقام اور ہراساں کرنے کی علامت" ہے۔ تنظیم نے کہا کہ وہ حکومت کے اس اقدام کی "شدید مذمت" کرتے ہیں۔

ڈاکٹر اجے کار پانڈے اس استدلال سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس طرح ڈی پورٹ کئے جانے کے پیچھے کوئی سیاسی محرکات ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انفارمیشن اور براڈ کاسٹنگ کے ڈائرکٹر انو رادھ سنگھ کے ساتھ ایک میٹنگ میں جس میں امریکہ اور برطانیہ سمیت متعدد ملکوں کے میڈیا کے موقر اداروں کے نمائندے موجود تھے ، ایک ایسی رپورٹ پر بات کی گئی جس میں کووڈ نائنٹین کے دنوں میں ان کے بقول ایسی گمراہ کن اطلاعات دی گئیں کہ آس پاس کے علاقوں میں اسپتالوں اور شمشان گھاٹوں میں گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ جس پر واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے بتایا کہ اس رپورٹ کوغلط طور پر ان کے ادارے سے منسوب کرکے شئیر کیا گیا ہے۔ بقول ڈاکٹر پانڈےکے ’’سوشل میڈیا کے اس دور میں غیر ذمہ دارانہ جرنلزم بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔اور جب داخلے سے انکار کیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے جانکاری مو جود ہوتی ہے۔‘‘انہوں نے کہا۔

کور نے کہا، "ہندوستان میں ان کے بہت سے رشتہ دار ہیں۔ وہ یقیناً ذاتی سفر پر تھے۔ لیکن، میرے خیال میں، بھارتی حکام نے سوچا کہ وہ اس بار صحافت سے متعلق کچھ کام کریں گے۔ داخلے سے انکار کرنے کی کوئی اور وجہ نہیں ہونی چاہیے،"

کور نے یہ بات وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

گرمیت کور جو خود بھی بچوں کی کتابوں کی ایک معروف مصنفہ ہیں، کہتی ہیں کہ"انہوں نے کوئی وجہ نہیں بتائی ۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ ان کا ایوارڈ یافتہ صحافی ہونا انہیں خوفزدہ کرتا ہے،‘‘ کور نے فیس بک پر لکھا۔" سچ بولنے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔جو ہمیں اسے ادا کرنی ہوگی۔"

بھارتی حکام نے سنگھ کو کچھ سال پہلے ہندوستان میں داخل ہونے کے لئے ویزا دینے سے اس وقت انکار کر دیا تھا جب انہوں نے ماضی میں "اچھوت" کے نام سے جانے جانے والے، دلتوں پر، ایک دستاویزی فلم بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ ۔ اس معاملے میں دستاویزی فلم بنانے کے لیے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا گیاتھا۔

XS
SM
MD
LG