رسائی کے لنکس

محبت کرنا منع ہے!


’لو میرج‘ یا محبت کی شادی کی مخالفت کا رحجان پاکستان کے ترقی یافتہ شہری علاقوں میں بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ پسماندہ قبائلی علاقوں میں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شہری علاقوں میں جرگوں کے فیصلوں پر لڑکا لڑکی کو سنگ سار نہیں کیا جاتا

دو روز قبل نظر کے سامنے سے ایک خبر گزری جس کے مطابق پاکستان کی کرم ایجنسی میں ایک پاکستانی فوجی کو ایک خاتون کے ساتھ محبت کے جرم میں سرعام پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

فوجی کو سنگ سار کرنے کا فیصلہ ایک مقامی جرگے میں کیا گیا جہاں محبت کرنے کو ’غیر اسلامی‘ فعل قرار دیا گیا۔

خبر کے مطابق، 27 سالہ انور الدین 19 سالہ انتظار بی بی سے شادی کرنا چاتا تھا۔

خبر کو پڑھتے ہی مجھے14 فروری 2006ء کا دن یاد آ گیا۔ میں لاٗ کی اسٹوڈنٹ تھی اورمعمول کے مطابق یونیورسٹی آف پنجاب کے لاٗ کالج میں کلاسز لے رہی تھی۔ کلاسز ختم ہوتے ہی گھر جانے کے لئے جب یونیورسٹی سے باہر نکلی تو عجب سا سناٹا دیکھنے میں آیا، جیسے شہر میں کوئی رہتا ہی نہ ہو اور سڑکوں پر ٹریفک پر پابندی لگا دی گئی ہو۔

گھر جانے کی فکر میں، میں نے ایک یونیورسٹی اہلکار سے حال جاننے کی کوشش کی، کہ آخر ماجرا کیا ہے؟

یونیورسٹی اہلکار نے بتایا کہ 2005ء میں ڈینمارک کے ایک اخبار کی جانب سے شائع کئے جانے والے توہین آمیز خاکوں پر احتجاج کیا جارہا ہے، اور اس احتجاج کے لئے ویلنٹائن ڈے کا دن چنا گیا ہے۔

جس وقت میں کلاسز میں مصروف تھی، اس وقت سڑک پر لوگوں کے ہجوم نے نہ صرف ہر گاڑی کی توڑ پھوڑ کی، بلکہ مبینہ طور پراسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان نے یونیورسٹی میں ان لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جو جوڑوں میں کھڑے تھے۔


احتجاج اپنی جگہ، لیکن مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ احتجاج کے لئے ویلنٹائن ڈے کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس احتجاج کا ویلنٹائن ڈے سے کیا تعلق ہے؟

اور اب اس پاکستانی فوجی کے قتل کی خبر کو پڑھ کر نہ صرف مجھے انتہائی صدمہ ہوا، بلکہ ہمارے معاشرے میں پائے جانےوالے اس رجحان کی طرف بھی دھیان گیا جہاں لڑکے اور لڑکی کی محبت اور پسند کی شادی کو ’گناہ‘ قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ’لو میرج‘ یا محبت کی شادی کی مخالفت کا رجحان پاکستان کے ترقی یافتہ شہری علاقوں میں بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ پسماندہ قبائلی علاقوں میں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شہری علاقوں میں جرگوں کے فیصلوں پر لڑکا لڑکی کو قتل نہیں کیا جاتا۔

’ویلنٹائن ڈے‘ اور پسند کی شادی کی مخالفت کرنے والے افراد کا موٴقف ہوتا ہے کہ یہ اخلاقیات کے منافی ہیں اور معاشرے میں بے راہ روی کے رجحان کو فروغ دیتے ہیں۔ اور کہنے والے اسے غیراسلامی بھی قرار دیتے ہیں۔ لیکن، میں ہمیشہ یہی سوچتی ہوں کہ سال کے ایک دن ویلنٹائن کے روز کسی سے محبت کا اظہار کرنے میں کیا مذائقہ ہے؟

اور اگر یہ دن حقیقت میں بے راہ روی کو فروغ دے رہا ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ اس پر پابندی لگانے سے سال کے 364 روز ملک میں ہونے والی تمام ’غیر اخلاقی‘ حرکات سے چھٹکارہ حاصل کرلیا جائے گا؟

جہاں تک پسند کی شادی کو غیراسلامی قرار دینے کی بات ہے تو میں یہاں یہ ضرور یاد دلانا چاہتی ہوں کہ ام الموٴمنین حضرت خدیجة الکبریٰ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے نبی کریم
کی قابلیت اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر انہیں شادی کی دعوت دی تھی۔

on FaceBook اب وردہ بولے گی Follow
XS
SM
MD
LG