رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش میں انتخابات سے قبل بڑے پیمانے پراپوزیشن کی پکڑ دھکڑ، ہیومن رائٹس واچ


ڈھاکہ میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ہید کوارٹز کے سامنے پولیس اہلکار متعین ہیں
ڈھاکہ میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ہید کوارٹز کے سامنے پولیس اہلکار متعین ہیں

حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پیر کے روز کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں عام انتخابات سے قبل اپوزیشن کی جماعتوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں اور بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑکا سلسلہ جاری ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اپوزیشن کے 10 ہزار سرگرم کارکنوں کو گرفتارکیا جاچکا ہے۔اس کے بقول، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف کارروائیوں کا مقصد عام انتخابات میں کسی بھی قسم کے مقابلے کے امکانات کو ختم کرنا ہے۔

ان گرفتار شدگان میں بہت سے افراد حزب اختلاف کی اہم جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یا بی این پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں سے کئی افراد کو فرد جرم کا بھی سامنا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بی این پی کے مطابق اس کے50 لاکھ ارکان میں سے تقریباً نصف کو سیاسی محرکات کی بناء پر بنائے گئے مقدمات کا سامنا ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک سرگرم کارکن نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ وہ سینئیر سطح کے رہنماؤں سے لے کر عام سیاسی کارکن، کسی کو نہیں چھوڑ رہے ہیں۔

حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے گروپ کا کہنا ہے کہ قید خانوں میں ان کی گنجائش سے د گنے قیدی بند کیے گئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری
بنگلہ دیش میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری

تقریبا 17 کروڑ آبادی والے ملک بنگلہ دیش میں سات جنوری کو عام انتخابات ہو نے والے ہیں اور وزیر اعظم شیخ حسینہ مسلسل چوتھی بار اقتدار میں آنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بنگلہ دیش کے حکام اپوزیشن کو اور کسی نوعیت کے مقابلے کو واضح طور پر ختم کرنے کی کوشش میں سیاسی مخالفین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کر رہے ہیں۔

نیو یارک میں قائم حقوق انسانی گروپ کا کہنا ہے کہ اکتوبر کے دوران احتجاج میں اضافے کے بعد سے کم از کم 16 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں دو پولیس افسر بھی شامل ہیں۔مظاہروں میں ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیش کی حکومت نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ پر کوئی فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان کو مختلف نوعیت کے پر تشدد جرائم کے لیے مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔

ہیومن رائٹس واچ کی یہ رپورٹ متعدد عینی شاہدین کے انٹرویوز، ویڈیوز اور پولیس رپورٹوں کے تجزیوں کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا ثبوت ملا ہے کہ سیکیورٹی فورسز، اندھا دھند قوت کے استعمال، من مانے طریقے سے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، زبردستی لوگوں کو غائب کردینے کی کارروائیوں، اذیت رسانی اور ماورائے عدالت لوگوں کے قتل میں ملوث ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی سینئیر ایشیا ریسرچر جولیا بلیکنر کہتی ہیں کہ ان حالات میں ہونے والے انتخابات کی کوئی ساکھ نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسےحالات میں آزادانہ انتخابات ناممکن ہیں جب حکومت آزادی اظہار پر قدغنیں لگا کر ، اپوزیشن، ناقدین اور سرگرم کارکنوں کو من مانے طریقے سے گرفتار کرکے، لوگوں کو زبردستی لاپتہ کرکے ، لوگوں کو ہراساں اور خوفزدہ کرکے منظم طریقے سےنا اہل کررہی ہو اور انہیں کچھ کرنے کے قابل نہ چھوڑ رہی ہو۔

بی این پی نے اتوار کو کہا ہے کہ اکتوبر سے اب تک اس کے کم از کم 16 ہزار چھ سو 25 ارکان کو گرفتار کیا جا چکا ہےجن میں اس کی بیشتر قیادت خاص طور پر مرزا فخر السلام عالمگیر شامل ہیں جو اس وقت عملاً بی این پی کے سربراہ ہیں۔

اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG