رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: کم اجرتیں اور غیر معیاری حالات کار سے گارمنٹ انڈسٹری کو خطرہ


بنگلہ دیش میں اس وقت کم وبیش گارمنٹس کی پانچ ہزار فیکٹریاں ہیں جو بڑی بڑی بین ااقوامی کمپنیوں، مثال کے طورپر گیپ، ٹامی، ٹیسکو اور وال مارٹ کے لیے مشینوں پر کپڑوں کی سلائی میں مصروف رہتی ہیں۔

بنگلہ دیش کی سلے سلائے کپڑوں کی صنعت چین کے بعد دنیا کی سب سے بڑی صنعت بن کرابھر رہی ہے ، لیکن دوسری جانب وہاں اس شعبے کے کارکنوں کی کم اجرتیں اور کام کے حالات سے بین الاقوامی خدشات بڑھ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں اس وقت کم وبیش گارمنٹس کی پانچ ہزار فیکٹریاں کام کررہی ہیں اور ان سے تقریباً 35 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے جن میں اکثریت خواتین کی ہے جو بڑی بڑی بین ااقوامی کمپنیوں ، مثال کے طورپر گیپ، ٹامی، ٹیسکو اور وال مارٹ کے لیے مشینوں پر جھکی کپڑوں کی سلائی میں مصروف رہتی ہیں۔

بنگلہ دیش میں گارمنٹ فیکٹری کے ایک کارکن کی اجرات 37 ڈالر ماہانہ سے شروع ہوتی ہے جو ایشیا بھر میں سب سے کم ہے۔

کم اجرتوں کی وجہ سے بنگلہ دیش کو اپنے ملبوسات کی قیمتیں کم رکھنے میں مدد ملتی ہے اور اس کی یہ صنعت اپنے ایشیائی حریفوں سے مقابلہ کرنے کے قابل بن گئی ہے۔

لیکن دوسری طرف کم اجرتیں کارکنوں میں بے چینی کو بھی بڑھا رہی ہیں۔ اس سال جون میں بنگلہ دیش کی سینکڑوں گارمنٹس فیکٹریاں کیونکہ ان کے کارکن تنخواہوں میں اضافے اور کام کے حالات بہتر بنانے کے مطالبوں کے ساتھ ہڑتال پر چلے گئے تھے۔

لیبر یونینز کا کہناہے کہ ملک میں افراط زر کی شرح دوہندسوں میں ہے جس سے ان کی اجرتوں کی قوت خرید نمایاں طور پر کم ہوچکی ہے۔

کارکنوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ اکثر گارمنٹس فیکٹریوں میں حفاظتی انتظامات کا معیار پست ہے۔فیکٹری مزدوروں اور صنعت کے مالکان کے درمیان بڑھتی ہوئی گشید گی کے باعث اپریل میں ایک سرگرم مزور لیڈر امین الاسلام ہلاک ہوگیاتھا۔

احتجاجی مظاہروں اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے بنگلہ دیش سے گارمنٹس خریدنے والی بین الاقوامی کمپنیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ اس ملک کی جانب مبذول کروا دی اور انہوں نے انتظامیہ پر کارکنوں کی اجرتیں بڑھانے پر زور دیا۔

لیکن بنگلہ دیش کے فیکٹری مالکان کو خدشہ ہے کہ تنخواہیں بڑھانے سے وہ اس صنعت میں ایشیائی ملکوں سے مسابقت میں حاصل اس فائدے سے محروم ہوجائیں گے جو اس وقت انہیں حاصل ہے۔

بنگلہ دیش گارمنٹ مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے سربراہ شفیع الاسلام محی الدین کہتے ہیں کہ دوسال پہلے اجرتوں میں اضافہ کیا گیاتھا اور 2015 تک ان پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت یہ زور دے رہی ہے کہ وہ کارکنوں کو خوراک اور گھر کے لیے کوئی الاؤنس دے۔

گارمنٹ انڈسٹری کو اپنی حکومت کی حمایت حاصل ہے کیونکہ یہ ملک میں سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے والی صنعت ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدت کا 80 فی صد گارمنٹس سے ہی آتا ہے اور یہ صنعت اپنے ملک کے لیے سالانہ 19 ارب ڈالر کا زر مبادلہ حاصل کرتی ہے۔

ماہرین کا کہناہے کہ اس مسئلے کے حل میں ناکامی اس صنعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے جسے پہلے ہی مغربی ممالک کی سست معیشت کے باعث دباؤ کاسامنا کرنا پڑ رہاہے۔
XS
SM
MD
LG