رسائی کے لنکس

کچھ بھی پڑھیں، کہیں بھی پڑھیں، بس پڑھیں!


Young woman lying on field, reading book, ground view
Young woman lying on field, reading book, ground view

دنیا بھر میں کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہو ا ہے۔ لیکن، لوگ جتنا بھی پڑھ رہے ہیں اس میں سے 60 فیصد لوگ فکشن اور 40 فیصد غیر فکشن پڑھ رہے ہیں: سلمان صدیقی

ماہرین کے مطابق، پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد اسکول نہیں جاتی۔

اور، جو بچے اسکول، اور وہ بھی سرکاری اسکول جاتے ہیں, ان میں سے بہت سوں کو یا تو سرے سے اسکول ہی نہیں ملتا۔ وجہ یہ کہ بہت سے اسکول صرف سرکاری کاغذوں پر ہی ہوتے ہیں۔ یا اگر، حقیقت میں اسکول ہو بھی، تو یا اس کی چھت اور دیواریں نہیں ہوتیں اور اگر یہ سب ہو تو بھی اسکول میں فرنیچر نہیں ہوتا۔ اور، اگر وہ بھی ہو تو وہ اسکول جانوروں کے باڑے یا نشیوں کے اڈے کے طور پر استعمال ہو رہا ہوتا ہے۔

اس حوالے سے شائع ہونے والے ایک مضمون سے پتا یہ چلتا ہے کہ کسی حد تک صورت حال یہ ہے کہ غیر ملکی امداد ملک میں اشتہاری مہموں یا اسکولوں کے اس عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہو جاتی ہے، جو اسکول آتا ہی نہیں۔

کیا تعلیم کے فروغ کے لئے دنیا میں ہونے والے کامیاب تجربوں سے پاکستان فائدہ نہیں اٹھا سکتا؟ جیسا کہ موبائل فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے روز بچوں کو سبق بھیجنا یا پھر ھوم اسکولنگ یعنی کہ والدین اور اساتذہ کی مد د سے بچوں کا گھر پر پڑھنا۔

ادھر، ڈاکٹر اسپوکس کے مطابق، لفظ ایجوکیشن کا مطلب بچے کے اندر موجود صلاحیتوں کو نکھارنا ہے۔ بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ نصاب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی چیزیں پڑھنا بھی بچے کو بہت کچہ سکھاتا ہے۔

'سائنٹیفک امیریکن مائنڈ' نامی جریدے کے مطابق، ایک زمانے میں ماہر نفسیات سوچتے تھے کہ فکشن، جیسا کہ ناول اور افسانے پڑھنے سے کوئی کچھ نہیں سیکھتا۔ لیکن، پچھلے 25 سالوں کی تحقیق نے کہانیوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

جریدے کے مطابق کہانیاں پڑھنے سے انسان میں دوسروں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اور یوں اس کی سماجی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے، فکشن کی خیالی دنیا میں داخل ہو کر انسان کو دوسروں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور حقیقی زندگی کی ریہرسل ہو جاتی ہے۔

'سائنٹیفک امیریکن مائنڈ' کے مطابق، فکشن پڑھنے سے انسان نہ صرف کہانیوں میں کرداروں کو بہتر سمجھتا ہے، بلکہ مجموعی طور پر انسان کے کردار کو سمجھتا ہے۔

'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں سرگرم 'ای آر ڈی سی' (یعنی ایجوکیشن ریسورس ڈیولپمنٹ سینٹر) کے ڈائریکٹر سلمان صدیقی نے کہا ہے کہ کہانی میں انسان کے دل میں اتر جانے کی صلاحیت ہوتی ہے، مصنف کی تخلیق کردہ مصنوعی دنیا پڑھنے والے کو اس افسانوی دنیا اور اس کے کرداروں اور واقعات سے وہ کچھ سکھا سکتی ہے، جو کہ نصابی کتابیں نہیں سکھا پاتیں۔

سلمان صدیقی نے کہا ہے کہ مذہبی کتابیں پڑھنے سے بھی کہانی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن کہانیوں کے ذریعے پڑھنے والے کو بہت کچھ سکھاتا ہے اور کہانی کے ذریعے سمجھائی جانے والی بات بڑھتی عمر کے ساتھ اور زیادہ سمجھ میں آتی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے۔ لیکن لوگ جتنا بھی پڑھ رہے ہیں اس میں سے 60 فیصد لوگ فکشن اور 40 فیصد غیر فکشن پڑھ رہے ہیں۔

ان ماہرین کی تحقیق اور تجزیوں سے یوں لگتا ہے کہ شاید اسکول کی عمارت، اس کی چھت، دیواروں، فرنیچر، نصاب، استاد اور کسی بھی اور چیز سے زیادہ اس بات پر زور دینا چاہئے کہ انسان کچھ بھی پڑھے، کہیں بھی پڑھے، بس پڑھے! تاکہ، اچھے برے کی تمیز ہو سکے۔
XS
SM
MD
LG