رسائی کے لنکس

بھارت میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے افراد کا استحصال


اینٹوں کا سیزن شروع ہونے سے پہلے ہی بھٹوں کے مالک تقریباً تما م مزدوروں کو قرضہ فراہم کرتے ہیں جس کے باعث وہ فوری طور پر قرضے تلے دبنا شروع ہو جاتے ہیں۔پھر دس ماہ تک جاری رہنے والے تمام تر سیزن کے دوران بھٹوں کے یہ مالک مزدوروں کی تنخواہ روک لیتے ہیں جس کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں رکھا جاتا۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ بھارت میں کروڑوں افراد اینٹوں کے بھٹوں میں زبردستی کے قرضوں اور کم ترین اجرت کے لامحدود بھنور میں پھنس کر رہ گئے ہیں جس کے باعث ایسے افراد اپنے بچوں کو بھی ساتھ لا کر بھٹوں کی انتہائی گرمی اور غبار زدہ ماحول میں بغیر اجرت کے کام کرانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

بدھ کے روز غلامی کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم اینٹی سلیوری انٹرنیشنل کی طرف سے بدھ کے روز جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کی شمالی ریاست پنجاب میں لگ بھگ ایک لاکھ اینٹوں کے بھٹوں میں تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ مزدور کام کر رہے ہیں۔

اینٹوں کا سیزن شروع ہونے سے پہلے ہی بھٹوں کے مالک تقریباً تما م مزدوروں کو قرضہ فراہم کرتے ہیں جس کے باعث وہ فوری طور پر قرضے تلے دبنا شروع ہو جاتے ہیں۔پھر دس ماہ تک جاری رہنے والے تمام تر سیزن کے دوران بھٹوں کے یہ مالک مزدوروں کی تنخواہ روک لیتے ہیں جس کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں رکھا جاتا۔ یوں بھٹوں کے مالکان واجب رقم سے کہیں کم رقم اجرت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔

انتہائی گرم موسم کے دوران 14 سال سے کم عمر کے کم و بیش 80 فیصد بچے اوسطاً نو گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں۔ چونکہ اجرت کی ادائیگی بنائی جانے والی ہر اینٹ کے حساب سے کی جاتی ہے، خاندان اپنے کام کی مقدار بڑھانے کی خاطر اپنے بچوں کو بھی ساتھ لا کر اُن سے مزدوری کرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ وہ قرضے کی اقساط ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھٹوں میں رہائش کی سہولتیں بھی انتہائی نا گفتہ بہ ہیں جہاں ہوا میں مٹی کے غبار اور دوسرے کیمیائی اجزا شامل ہوتے ہیں اور وہاں تازہ پانی تک رسائی بھی نہیں ہوتی۔ پورا خاندان آٹھ میٹر سے بھی کم جگہ کے چھوٹے سے کمرے میں رہ کر گزارا کرتا ہے۔

اینٹی سلیوری انٹرنیشل کی رپورٹ کیلئے تعاون کرنے والے سماجی انصاف کے رضاکاروں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کیلئے کم از کم اجرت کا تعین کرے اور بچوں کی مزدوری سے متعلق قوانین کا نفاذ کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ بچوں کو مناسب تعلیم فراہم کی جائے۔ سماجی انصاف کے رضاکاروں کی تنظیم کے ڈائریکٹر جے سنگھ کا کہنا ہے، ’’اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس استحصال کو ختم کرے جو اکیسوی صدی میں ہر گز نہیں ہونا چاہئیے۔‘‘

XS
SM
MD
LG