رسائی کے لنکس

بریگزٹ میرا قصور نہیں ؟


اسکولوں کے بچے بریگزٹ کے لیے اپنے بڑوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ بریگزٹ میں تمھارے والدین کا قصور ہے۔

برطانیہ میں پچھلے چند سالوں کے دوران ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو یورپی یونین کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں اور ریفرنڈم کے نتیجے سے دنیا بھر میں یہ پیغام گیا ہے کہ برطانوی عوام کی یورپ کے ساتھ یک جہتی میں دلچسپی باقی نہیں رہی ہے لیکن کیا یہی سچائی ہے جس کی وجہ سے برطانیہ یورپ سے الگ ہو گیا ہے۔

یورپی رکنیت پر ریفرنڈم کے سوال پر عوام کو صرف ہاں یا نا میں جواب دینا تھا یعنی وہ یورپی یونین کی رکنیت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا پھر اس سے نکلنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جمعرات کو پولنگ اسٹیشن کے باہر ہماری کئی ایسے تارکین وطن خاندانوں سے ملاقات ہوئی تھی جو ووٹ ڈالنے سے پہلے تذبذب کا شکار تھے اور عین آخری لمحات میں انھوں نے اندازے سے کسی ایک باکس کو منتخب کیا تھا۔

لیکن ریفرنڈم کے بعد یورپی یونین سے نکلنے کی حمایت کرنے والے لوگوں کو نظریں چراتے ہوئے دیکھا گیا ہے حتیٰ کہ اسکولوں کے بچے بریگزٹ کے لیے اپنے بڑوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ بریگزٹ میں تمھارے والدین کا قصور ہے۔

یہ معاملہ کتنا پیچیدہ تھا ایک عام شہری کے لیے اس کا صحیح اندازا لگانا واقعی مشکل تھا یہ جواب ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم محمد ترکی مترکی کا تھا ان کا تعلق عراق سے ہے۔ ترکی نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے لوگوں نے فیصلہ ایک قوم بن کر کیا ہے کیونکہ انھیں ایسا لگتا ہےکہ ایک فلاحی ریاست اب تارکین وطن کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہے۔

انھیں یہ فیصلہ کس طرح متاثر کر سکتا ہے اس کے جواب میں ترکی نے بتایا کہ میرا مستقبل اب برطانیہ تک محدود ہے ایک برطانوی شہری کی حیثیت سے مجھے تحقیق یا روزگار کےحوالے سے یورپ میں کسی قسم کی سہولت حاصل نہیں ہو سکے گی۔

مائیکل شیفیلڈ کے پرانے باسی ہیں ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کا غصہ تارکین وطن کے لیے نہیں تھا بلکہ برسلز کے خلاف تھا اور غصے میں لیے گئے اس فیصلے پر اب بہت سے لوگوں کو پچھتاوا ہے۔

ایڈم کا تعلق پولینڈ سے ہے وہ ایک بینک میں ملازمت کرتے ہیں اور خود کو تارکین وطن کہلوانا نہیں چاہتے ہیں وہ اس نتیجے پر انتہائی ناخوش تھے انھوں نے کہا کہ مجھے یقین نہیں آتا ہے کہ شیفیلڈ نے بھی یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے یہاں میرے تمام دوست احباب یونین کے حامی تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہم یہاں غیر ضروری ہو گئے ہیں اچانک مجھے اپنا تعارف پیش کرنے میں مشکل ہو رہی ہے کیونکہ میں برٹش شہری نہیں بلکہ یورپی شہری ہوں۔

صالح احمد کا تعلق صومالیہ سے ہے انھوں نے بتایا کہ میری اہلیہ کا تعلق چیکوسلواکیہ سے ہے ہماری شادی کو پانچ سال ہو چکے ہیں ہمارے بچے بھی ہیں لیکن ریفرنڈم کے بعد ہم سخت پریشان ہیں مجھے نہیں معلوم کہ اگر میری بیوی کو واپس اپنے ملک جانا پڑا تو مجھے اسے واپس برطانیہ بلانے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔

​سبین راشد نے کہا کہ ان کا ووٹ بریگزٹ کے لیے تھا اور وجہ یہ تھی کہ یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے برطانیہ میں بہت حقوق ہیں حتیٰ کہ انھیں اپنے خاوند یا شوہر کو یورپ سے بلانے میں کوئی وقت درکار نہیں ہوتا ہے لیکن دوسری طرف دولت مشترکہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے امیگریشن قوانین دن بدن سخت ہوتے جا رہے ہیں۔

امینڈا شیفیلڈ سے تعلق رکھتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ مجھے حیرت ہے کہ ہم نے یورپ سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے یقینناً اس سے میرے دوست اور محلہ دار متاثر ہوں گے اور میں سمجھتی ہوں کہ ڈیوڈ کیمرون کے مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی صحیح نہیں ہے ملک کو اس وقت ان کی ضرورت ہے۔

ریفرنڈم کے نتائج کے حوالے سے لوگوں کی رائے میں بہت کم اختلاف دیکھنے کو ملا، ہر شخص کے چہرے پر ایک سوالیہ نشان تھا کہ اب کیا ہو گا باوجود اس کے کہ انھوں نے یورپ سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دیکھا جائے تو وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کبھی بھی یورپ سے نکلنے کے حامی نہیں تھے البتہ وہ یونین کے بعض ضابطوں سے بچنا چاہتے تھے، انھوں نے یونین کے اٹھائیس ملکوں کے ساتھ مذاکرات بھی کئے وہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کےخواہشمند رہے ہیں۔

تاہم عوام کے ساتھ ان کے ریفرنڈم کے وعدے اور اس کے نتیجے میں عوام کے فیصلے نے برطانیہ کو یورپ سے الگ کر دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG