رسائی کے لنکس

 کینیڈا کے قطبی ریچھ  بڑی تعداد میں مرنے لگے


قطبی ریچھ : فائل فوٹو
قطبی ریچھ : فائل فوٹو

کینڈا میں حکومت کے ایک نئے سروے سے پتہ چلا ہے کہ مغربی خلیج ہڈسن میں قطبی ریچھ مسلسل بڑی تعداد میں مر رہے ہیں اور مادہ ریچھ اور بچے خاص طور پر مشکل میں گرفتار ہیں ۔

محققین نے 2021 میں ویسٹرن ہڈسن بے کا جسےدنیا کا قطبی ریچھ کیپٹل کہا جاتا ہے ایک فضائی سروے کیا اور اندازہ لگایا کہ ان کی تعداد 618 تھی جب کہ2016 میں جب ان کا آخری سروے کیا گیا تھا ان کی تعداد 842 تھی ۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق البرٹا یونیورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر اینڈریو ڈیروچر جو تقریباً چالیس سال تک ہڈسن بے قطبی ریچھوں پر ریسر چ کر چکے ہیں کہتے ہیں کہ حقیقی کمی میری توقع سے کہیں زیادہ ہے۔ اینڈریو ڈیروچر اس سروے میں شامل نہیں تھے ۔

اس حکومتی سروے کے محققین کا کہنا ہے کہ انہیں تحقیق سے معلوم ہوا کہ 1980 کی دہائی سے خطے میں ریچھوں کی تعداد میں تقریباً 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اس لئے کہ ان کی بقا کے لیے ضروری برف غائب ہو رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق قطبی ریچھ آرکٹک سمندری برف ، یعنی منجمد سمندری پانی پر انحصار کرتے ہیں جو گرمیوں میں گرم درجہ حرارت کی وجہ سے کم ہوجاتا ہے اور طویل موسم سرما میں دوبارہ بن جاتا ہے۔

وہ اس موٹی برف میں سوراخوں کے قریب بیٹھ کر ہوا لیتے ہیں اور اپنی پسندیدہ خوراک سیلز کا شکار کرتے ہیں ۔ لیکن کیوں کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آرکٹک باقی دنیا کے مقابلے میں دو گنا زیادہ تیزی سے گرم ہوا ہے، سمندری برف سال کے شروع میں زیادہ جلد پھٹ رہی ہے اور اسے موسم خزاں میں جمنے میں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔

اس کے نتیجے میں بہت سے قطبی ریچھوں کے لئے وہ برف کم ہو گئی ہے جس پر وہ زندہ رہنے ، شکار کرنے اور افزائش نسل کے لئے انحصار کرتے ہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقطبی ریچھ آرکٹک میں نہ صرف اہم شکاری ہیں بلکہ برسوں سے ، وہ موسمیاتی تبدیلی کا سب سے نمایاں مظہر تھے۔محققین نے کہا کہ ویسٹرن ہڈسن بے میں نوجوان اور مادہ ریچھوں میں اموات تشویشناک ہیں۔

س ریسرچ کے سر براہ اور قطبی ریچھوں پر تیس سال کی ریسرچ کا تجربہ رکھنے والے Stephen Atkinson کہتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ سے یہ پیش گوئی کی ہے کہ یہ ریچھوں کی وہ اقسام ہیں جو ماحولیات کی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ نوعمر ریچھوں کو اپنی جسمانی نشو و نما کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ کافی خوراک کے بغیر زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتے اور ریچھنیوں کو اپنے بچوں کی پرورش کے لئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اور آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں کم ہونے والی سمندری برف ان کے لئے شکار کے مواقع کم کر رہی ہے اور قطبی ریچھ کے بچوں اور ریچھنیوں کے لئے خوراک کی کمیابی کا یہ مسئلہ یقینی طور پر قطبی ریچھوں کی آبادی میں کمی کا مسئلہ پیدا کر رہا ہے ۔

رفانی ریچھ کے تحفظ کے ایک ادارے پولر بیئرز انٹرنیشنل کے چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر سٹیون ایمسٹرپ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ یہ سب سے پہلے برفانی ریچھ کے بچوں کو بقا کا مسئلہ درپیش ہے، کیونکہ برف پگھلنے کے دنوں میں مادہ برفانی ریچھ کا جسم اب اتنا توانا اور صحت مند نہیں ہوتا کہ وہ دودھ کی اتنی مقدار پیدا کر سکے جتنی اس کے بچوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کمزور رہ جاتے ہیں اور وہ موت کا آسانی سے ہدف بن سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ آرکٹک کے کئی حصوں میں اس صورت حال کا سامنا ہے اور وہاں رہنے والے برفانی ریچھ خوراک کی قلت اور اپنے بچوں کے لیے ماں کے دودھ کی مناسب مقدار میں کمی کے مسئلے سے گزر رہے ہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

کینیڈا کی یونیورسٹی آف آنٹیریئو کے پروفیسر ڈاکٹر پیٹر مولنار کہتے ہیں کہ برفانی ریچھ آب و ہوا کی تبدیلی کی ایک نمایاں علامت بن گیا ہے۔ وہ پہلے ہی دنیا کی چوٹی پر بیٹھا ہے۔ اگر برف ختم ہو گئی تو ایسی کوئی اور جگہ بھی نہیں ہے جہاں وہ چلا جائے۔

فطرت کے تحفظ کے بین الاقوامی ادارے، آئی یو سی این نے آب و ہوا کی تبدیلیوں کے پیش نظر برفانی ریچھ کو ان جانوروں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جن کی نسل کو دنیا سے مٹ جانے کا خطرہ لاحق ہے۔

اس سلسلے میں کیے گئے مطالعاتی جائزے بتاتے ہیں کہ جیسے جیسے گلیشیئرز اور آرکٹک کی برف پگھل رہی ہے، برفانی ریچھوں کی تعداد بھی گھٹ رہی ہے۔ آئی یو سی این کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں برفانی ریچھوں کی کل تعداد دو ہزار سے ڈھائی ہزار کے درمیان ہے، جس میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا آب و ہوا کے مسئلے کی سنگینی کو سمجھ لے اور اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ ہو جائے تو ہم برفانی ریچھ کی نسل کو مٹنے سے بچا سکتے ہیں۔

لیکن ہمارے کرہ ہوائی میں جس رفتار سے گرین ہاؤس گیسیوں کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس صدی کے خاتمے تک قطبی علاقے برف سے خالی ہو جائیں گے اور جب برف ہی نہیں رہے گی تو برفانی ریچھوں کی نسل ہی ختم ہو جائے گی۔

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے کی موجودہ رفتار کے پیش نظر 2100 کے آغاز تک ایسا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کہ نہ صرف برفانی ریچھ کا دور بھی ختم ہو جائے گا، بلکہ جنگلی حیات کی کئی اور اقسام بھی دنیا سے مٹ جائیں گی۔

اس رپورٹ کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG