رسائی کے لنکس

بندروں میں انسانی دماغ کے جین کی پیوند کاری


چین کے ایک سائنسی مرکز میں جین میں تبدیلی کر کے کلون کیے گئے بندر۔ 18 جنوری 2019
چین کے ایک سائنسی مرکز میں جین میں تبدیلی کر کے کلون کیے گئے بندر۔ 18 جنوری 2019

چینی سائنس دانوں نے انسانی دماغ کے جین بندروں کے دماغ میں ڈالنے کا تجربہ کیا ہے۔ یہ عمل انسانی عقل کے ارتقا کے مطالعے سے متعلق ایک تحقیق کے دوران کیا گیا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ میں پائے جانے والے ایک مخصوص جین نے انسانی دماغ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے MCPH1 نامی جین کو سرخ منہ کی نسل کے گیارہ بندروں کے دماغ میں داخل کیا۔

انہیں اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بندروں کے دماغ نے، انسانی دماغ کی طرح نمو پانے میں زیادہ عرصہ لیا۔ ان بندروں نے اپنی نسل کے دوسرے بندروں کے مقابلے میں قلیل وقتی یاداشت کے تجربات میں بہتر نتائج دیے۔

مگر ان بندروں کے دماغ کا سائز زیادہ بڑا نہیں ہوا۔

یہ تجربات چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے کنمنگ انسٹی ٹیوٹ آف زولوجی میں کیے گیے۔ اس سلسلے میں چینی سائنس دانوں کو امریکی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے ماہرین کا بھی تعاون حاصل تھا۔

تاہم بائیو میڈیکل کی اس ریسرچ سے طب سے متعلق اخلاقیات پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سائنس فکشن سیریز ’پلینٹ آف ایپس‘ جیسے کردار پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس تحقیق کے مصنف نے لکھا کہ ‘‘ہماری ریسرچ کے ذریعے ان بنیادی سوالوں کا پتا لگایا جا سکے گا کہ انسانوں کو کیا چیز دوسری مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔’’

اس تجربے میں ان بندروں کو سکرین پر مختلف رنگ اور اشکال دکھا کر یہ جائزہ لیا گیا کہ وہ اسے کس حد تک یاد رکھ سکتے ہیں، جس کے لیے ان کے دماغ کی ایم آر آئی کی گئی۔

تجرباتی مراحل سے گزرنے کے بعد گیارہ میں سے صرف پانچ بندر زندہ رہ پائے۔

یونیورسٹی آف کولوراڈو کی بائیو سائنس کی ایک ماہر جیکولین گلوور نے کہا کہ ‘‘یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ فوراً سائنس فکشن سیریز ‘پلینٹ آف دی ایپس’ میں چلے گئے ہیں۔ ان بندروں کو انسانوں جیسا بنانے سے انہیں نقصان پہنچے گا۔ اور وہ دوبارہ کبھی اپنے ماحول میں نہیں رہ سکیں گے۔ ہمیں ایسے جاندار بنانے سے گریز کرنا چاہیے جو ایک بامقصد زندگی گزارنے کے قابل نہ رہیں۔‘‘

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ سرخ چہرے کی نسل کے بندروں کا ڈی این اے انسانوں کے بہت قریب ہے مگر پھر بھی لاکھوں انفرادی ڈی این اے ایسے ہیں جو بندروں اور انسانوں میں فرق کو نمایاں کرتے ہیں۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سائنس دان لیری بام نے کہا ہے کہ یہ تجربات اس نظریے کو تقویت دیتے ہیں کہ انسانی ارتقا کے عمل میں ذہانت کی نشوونما میں دماغ کے خلیوں کی سست رفتار پختگی کا کردار ہو سکتا ہے۔

پچھلے سال ایک اور چینی سائنس دان جیان کوئی نے اس انکشاف کے بعد سائنس دانوں کی کمیونٹی کو حیران کر دیا تھا کہ اس نے پیدائش سے پہلے دو جڑواں لڑکیوں کے جین میں تبدیلی کر کے انہیں ایچ آئی وی سے محفوظ بنا دیا تھا، جس کا انہیں خطرہ لاحق تھا۔

یہ تحقیق بیجنگ کے نیشنل سائنس ریویو میں چھپی ہے۔

XS
SM
MD
LG