رسائی کے لنکس

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملیریا، ایڈز اور ٹی بی پرکنٹرول کی کوششوں کو مشکلات کا سامنا کیوں؟


 سندھ کےقصبے رتوڈیرو کے قریب ایک گاؤں کے ایک اسپتال میں ایچ آئی وی کے خون کی اسکریننگ کے لیے ہسپتال کے باہر انتظار کر رہے ہیں جہاں ، 2019 کو بچوں میں مہلک بیماری پھیلی تھی۔
سندھ کےقصبے رتوڈیرو کے قریب ایک گاؤں کے ایک اسپتال میں ایچ آئی وی کے خون کی اسکریننگ کے لیے ہسپتال کے باہر انتظار کر رہے ہیں جہاں ، 2019 کو بچوں میں مہلک بیماری پھیلی تھی۔

ایڈز ، ٹی بی اور ملیریا کےانسداد سے متعلق ادارے گلوبل فنڈ نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور تنازعات دنیا کی تین انتہائی مہلک متعدی بیماریوں سے نمٹنے کی کوششوں کومتاثر کرر ہے ہیں۔ فنڈ کی جانب سے پیر کو جاری 2023 کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ کوویڈ 19 کی وبانے ان بیماریوں پر کنٹرول کی بین الاقوامی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا تھا، لیکن اب وہ بحال ہو چکی ہیں۔

مگر اس کے باوجود گلوبل فنڈ کے ایکزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر سینڈز کا کہنا ہے کہ آب وہوا کی تبدیلی اور تنازعات کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کی وجہ سے دنیا غیر معمولی اقدامات کے بغیر 2023 تک ممکنہ طور پر ایڈز ،ٹی بی اور ملیریا کے خاتمے کے ہدف پورے نہیں ہو پائیں گے ۔

مثال کے طور پر ملیریا افریقہ کےان پہاڑی علاقوں میں پھیل رہا ہے جو اس سے قبل ملیریا پھیلانے والے مچھروں کے لیے بہت سرد علاقے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سخت موسمی واقعات مثلاً سیلاب صحت کی سروسز کو متاثر کر رہے ہیں ، کمیونٹیز کو نقل مکانی پر مجبور کررہے ہیں، انفیکشن میں اضافہ کررہے ہیں اور بہت سے مختلف علاقوں میں علاج کو مشکل بنا رہے ہیں ۔

مختلف ملکوں میں جن میں سوڈان ، یوکرین ، افغانستان اور میانمار شامل ہیں ، سیکیورٹی کے فقدا ن کی وجہ سے متاثرہ کمیونٹیز تک رسائی ہی بہت مشکل رہی ہے ۔

ایڈز کا سابق مرکز سڈنی ایچ آئی وی خاتمے کے قریب
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:19 0:00

سینڈز نے کہا کہ کچھ اچھی خبریں بھی ہیں ۔ مثال کے طور پر جن ملکوں میں گلوبل فنڈ سرمایہ کاری کرتا ہے وہاں سال 2022 میں ٹی بی کے 67 لاکھ مریضوں کا علاج کیا گیا جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 14 لاکھ زیادہ لوگ تھے ۔

فنڈ نے ایچ آئی وی کے شکار دوکروڑ 45 لاکھ لوگوں کی اینٹی ریٹرو وائرل علاج فراہم کرنے میں بھی مدد کی اور دو کروڑ 20 لاکھ مچھر دانیاں تقسیم کیں ۔

سینڈز نے مزید کہا کہ بچاؤ اور تشخیص کے اختراعی طریقوں نے بھی امید پیدا کی ہے ۔ اس ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ٹی بی پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہو رہا ہے اور اس کے حامیوں کو امید ہے کہ اس بیماری پر از سر نو توجہ مرکوز کی جائے گی۔

گلوبل فنڈ کو ٹی بی کے کچھ ماہرین کی جانب سے اس بنا پر تنقید کا سامنا ہوا ہے کہ اس نے اس بیماری کے لیے اپنا زیادہ بجٹ مختص نہیں کیا ہے جو ان تین بیماریوں میں سب سے زیادہ مہلک ہے جن پر فنڈ کی توجہ مرکوز ہوتی ہے۔

سینڈز نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کو ٹی بی سے لڑنے کے لیے مزید وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے ۔۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہر بیماری کی سالانہ اموات سے موازنہ کرنا ۔

مثال کے طور پر بہت سے وہ ملک جہاں ٹی بی کا سب سے زیادہ بوجھ ہے ، درمیانی آمدنی کے حامل ہیں اور ان کے پاس اندرون ملک صحت کی سہولیات کے لیے زیادہ فنڈز موجود ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ایچ آئی وی سے متعلق سنسنی خیز خبریں اپریل 2019 میں اس وقت سامنے آئی تھیں جب صوبۂ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی تحصیل رتو ڈیرو میں کثیر تعداد میں چھوٹے بچوں میں اس کی تشخیص ہونے لگی تھی۔ ان میں سے بیشتر بچوں کے والدین ایچ آئی وی نیگٹو پائے گئے تھے۔

اس وقت چار سے چھ ہفتوں کے دوران ایک ہزار سے زائد بچوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی۔ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں کیسز سامنے آنے کے بعد حکومت نے پورے علاقے کی اسکریننگ کا فیصلہ کیا تھا۔

محکمۂ صحت سندھ کے مطابق تین برس کے دوران 10 لاکھ سے زائد افراد کی اسکریننگ کی گئی ہے اور ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کے لیے مختلف علاقوں میں ٹریٹمنٹ سینٹرز قائم ہیں۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی کوشش اپنی جگہ لیکن اب بھی معاشرے کے بہت سارے افراد خود ایچ آئی وی سے متعلق اسکریننگ کرانے سے کتراتے ہیں۔

رفیع اللہ( فرضی نام) کا تعلق خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے شہر پشاور سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب سے ان کی بیماری کا ان کے حلقہ احباب میں پتا چلا ہے تو وہ ان کے گلاس میں پانی تک نہیں پیتے۔ ان سے دور بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں جو برملا نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ معاشرے میں اب بھی ایچ آئی وی کے بارے میں یہی غلط فہمی ہے کہ یہ مرض صرف ناجائز جنسی تعلقات کی بنا پر لگتا یا پھیلتا ہے۔

ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو آج بھی اس بیماری کے باعث معاشرے کے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے اب بھی بہت سے افراد جو اس بیماری سے متاثر ہیں وہ اپنے اردگرد بسنے والوں سے اپنی بیماری چھپاتے ہیں۔

لیکن وہ بچے جن کی جینے کے لیے ایک طویل عمر پڑی ہے، ان کے والدین کو اب بھی ایسے رویے اور سوالات کا سامنا ہے جو انھیں پریشان کیے رکھتے ہیں۔

تاہم معالجین کا کہنا ہے کہ اس مرض کا شکار ایسی بہت سی حاملہ خواتین جن کا علاج جاری تھا، ان کی پیدا ہونے والی اولاد ایچ آئی وی سے محفوظ بھی رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اسکریننگ کروالی جائے اور مریض دوائیں شروع کردے تو وہ ایک معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔

( اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیاہے)

فورم

XS
SM
MD
LG