رسائی کے لنکس

آب و ہوا کی تبدیلی  سے خشک سالی کے واقعات 20 گنا بڑھ گئے ہیں


جون سےستمبر تک کے مہینے جنوبی ایشیائی خطے میں اتنے گرم اور خشک ہوتے ہیں کہ جب بارش کاچھینٹا بھی پڑتا ہے تو لوگ ’فائن ڈے‘ کی چھٹی کر کے تفریح کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن اس سال اتنے بادل آئے اور اتنا مہینہ برسا کہ ایک تہائی پاکستان ڈوب گیا۔ لاکھوں بے گھر ہو گئے، اور کئی علاقوں میں اب بھی اتنا پانی کھڑا ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے سوکھنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے اور بھی کئی علاقوں میں بارشوں اور سیلابوں نے تباہی مچا دی ہے۔

دوسری جانب یورپ میں، جہاں گرمیاں خوشگوار ہوتی ہیں اور دنیا بھر سے لاکھوں سیاح سیر و تفریح کے لیے وہاں کا رخ کرتے ہیں، اس برس اتنی گرمی پڑی کہ بدن پسینے سے نہا گئے اور زبانیں سوکھ کر کانٹا بن گئیں۔ لندن میں، جہاں اکثر گھروں میں ایئر کنڈیشنر تو کجا، پنکھے تک نہیں ہوتے، درجہ حرارت 104 درجے فارن ہائیٹ تک جا پہنچا اور لوگوں نے دہائیاں دینی شروع کر دیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس برس یورپ میں گرمی کی شدت سے 24 ہزار سے زیادہ اضافی اموات ہوئیں،

یہ سب اتفاق نہیں ہے، بلکہ حضرت انسان کے ان اعمال کی سزا ہے جسے وہ تقریباً دو صدیوں سے ترقی کے نام پر جاری رکھے ہوئے ہے۔ سائنس دان عشروں سے خبردار کر رہے ہیں کہ خدا را کارخانوں کی چمینیوں سے، گاڑیوں کے سائلنسروں سے اور گھروں کے چولہوں سے خارج ہونے والی کاربن گیسوں پر کنٹرول کرو، نہیں توموسم کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ مگر کروڑوں لوگ اور ترقی یافتہ ملکوں کے بہت سے بااختیار عہدے دار اس انتباہ کو ابھی تک سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

کارخانے کا پہیہ چلانے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ توانائی معدنی ایندھن جلا کر یا برقی رو سے حاصل کی جاتی ہے، لیکن اکثر بجلی گھروں میں بجلی بھی کوئلہ یا تیل جلا کر حاصل کی جاتی ہے۔

جب کوئلہ اور معدنی ایندھن جلتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی کاربن گیسیں فضا میں پھیل جاتی ہیں۔ یہ گیسیں زمین کے گرد ایک ایسی تہہ کی شکل میں جمع ہو جاتی ہیں جو زمین سے خارج ہونے والی حرارت کو واپس جانے سے روک دیتی ہے جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ اس عمل کو گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔

کاربن گیسیں گلوبل وارمنگ کا سبب ہیں۔
کاربن گیسیں گلوبل وارمنگ کا سبب ہیں۔

دن کو جب سورج چمکتا ہے تو اس کی حرارت زمین میں جذب ہو جاتی ہے، لیکن رات کو زمین یہ حرارت خارج کرتی ہے جو خلا میں واپس چلی جاتی ہے۔ لیکن اگر فضا میں کاربن گیسوں کی چارد موجود ہو تو وہ حرارت کو واپس زمین پر بھیج دیتی ہے۔ جس سے موسموں کو تبدیل کرنے والے قدرتی نظام میں خلل پڑنے لگتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسموں کے قدرتی نظام میں بگاڑ کی بنیاد دو صدیوں قبل صنعتی ترقی کے آغازسے پڑی۔ سائنس دان اس سے قبل کے کرہ ارض کے درجہ حرارت کو موسموں کے قدرتی نظام کی بنیادی اکائی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے اب تک زمین کے درجہ حرارت میں ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ لیکن اب اس میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ہمیں موسموں کا قدرتی ںظام بحال کرنا ہے تو اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لا کر کرہ ارض کے درجہ حرارت کو ڈیڑھ سینٹی گریڈ کم کرنا ہو گا۔

واپسی کا یہ عمل طویل، صبرآزما اور مہنگا ہے۔ اس کےلیے ہمیں معدانی ایندھن کا استعمال ترک کر کے اپنی ترقی کو ماحول دوست توانائی کی جانب منتقل کرنا ہو گا۔اگر ہم اس میں ناکام رہتے ہیں تو آنے والے برسوں میں ہمیں مزید سخت موسوں، سیلابوں، آفات اور تباہہیوں کےسامنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

گلوبل وارمنگ کے حوالے سے جاری ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں شدید موسموں اور طوفانوں سے ہٹ کر ایک اور پہلو کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ِآب و ہوا کی تبدیلی نے شمالی نصف کرہ ارض میں زمین کی سطح میں موجود نمی کو 20 گنا تک کم کر دیا ہے، جس کا نتیجہ خشک سالی اور فصلوں کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کی صورت میں برآمد ہو گا۔

دنیا بھر میں اس وقت بھی اناج کی قلت ہے۔ دوسری جانب آبادی اور غربت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ خشک سالی اور زمین کی سطح میں نمی گھٹنے سے خوردنی اجناس کی پیداورا مزید گھٹنے سے خوراک کی سیکیورٹی کو مزید دھچکا لگے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب سے درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھنے کاسلسلہ شروع ہوا ہے تب سے اس سال جون جولائی اور اگست کے مہینے تاریخ کے گرم ترین مہینے تھے اور درجہ حرارت اس قدر زیادہ تھا کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ کے اس حصے کو قرون وسطیٰ یا دوسرے لفظوں میں15 ویں صدی کے بعد سے اب تک کی بدترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دنیا بھر کی موسمی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کے اس شمالی نصف حصے میں کرہ ارض کے بلند درجہ حرارت کے باعث خشک سالی کی شدت کم از کم 20 گنا زیادہ تھی۔

سائنس دانوں نے گلوبل وارمنگ کے اثرات کو ایک نئے انداز میں پرکھنا شروع کیا ہے جس کا تعلق زمین کی اوپر کی سطح میں نمی کی مقدار سے ہے۔ نباتات اور زراعت کے لیے زمین کی اوپر والی ایک میٹر کی تہہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پودوں کی جڑیں اسی حصے میں پھیل کر خوراک تلاش کرتی ہیں اور پودے کو مضبوطی سے کھڑے ہونے میں مدد دیتی ہیں۔ اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے نمی درکار ہوتی ہے۔ بلند درجہ حرارت نے زمین کی اس پرت میں نمی کی مقدار کو غیر معمولی نقصان پہنچایا جس سے فصلوں کی پیداوار بہت زیادہ گھٹ گئی۔

سائنس دانوں کی ایک ٹیم نےصنتی دور سے قبل اور کرہ ارض کے آج کے درجہ حرارت جو تقریباً ڈیڑھ درجے زیادہ ہے، کے نباتات پر اثرات کا تجزیہ کمپیوٹر ماڈلز سے کیا جس سے معلوم ہوا کہ صنعتی دور کے آغاز سے قبل کے مقابلے میں آج زمین کی اوپری زرخیز سطح میں نمی کی مقدار 20 گنا سے زیادہ تک گھٹ چکی ہے، جس سے خشک سالی کے حالات پیدا ہو رہے ہیں اور فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف واشنگٹن میں انوکھا احتجاج
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:40 0:00

موسموں سے منسلک خشک سالی کا کبھی کبھار رونما ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اس وقت شمالی نصف کرہ ارض کو جس شدید نوعیت کی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ لگ بھگ 20 برسوں میں ایک بار سامنے آتی ہے، جب کہ 18 ویں صدی سے قبل ایسا 400 برسوں میں ایک بار ہی ہوا کرتا تھا۔

اس سال زمین کے ایک حصے میں خشک سالی سے جہاں خوردنی اجناس کی پیدوار میں کمی ہوئی ہے تو وہاں دوسرے حصے میں شدید بارشوں اور سیلابوں سے کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اگلے سیزن کے لیے اجناس کی بوائی میں رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں۔

ریڈ کراس ریڈ کریسنٹ کلائمیٹ سینٹر کے ڈائریکٹر اور یونیورسٹی آف ٹوینٹے میں موسمیاتی اور آفات کے شعبے کے پروفیسر مارٹن وان آلسٹ کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو مستقبل میں گرمی اور خشک سالی کے جھٹکوں سے نمٹنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ایسے واقعات جلد، بار بار اور تواتر کے ساتھ رونما ہوا کریں گے۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور اس سے کہیں زیادہ تیزی سے ہو رہا ہے جس کی ہمیں توقع تھی۔

اس رپورٹ کا کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG