رسائی کے لنکس

بھارتی ریاست بہار میں دو گروہوں میں تصادم سے حالات کشیدہ، امت شاہ کا دورہ منسوخ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی ریاست بہار کے روہراس اور نالندہ اضلاع میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔

نالندہ ضلعے کے علاقے بہار شریف میں ہفتے کی شام کو دو گروہوں میں ہونے والے تصادم کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے جب کہ روہتاس ضلع کے سہسرام میں ایک بم دھماکے میں چھ افراد زخمی ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق تشدد کے دوران متعدد مکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔

بعض مسلم شخصیات کا دعویٰ ہے کہ بہار شریف میں مسلمانوں کے مکانات کو ہدف بنا کر نذر آتش کیا گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بہار شریف کے علاقے پہاڑ پور میں ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت مکیش کمار کےنام سے ہوئی ہے۔

پولیس نے کہا ہے کہ مذکورہ شخص کو گولی لگی تھی جس سے اس کی موت ہوئی ہے۔

پولیس کے مطابق 112 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے نظم و نسق کی برقراری کے مقصد سے نالندہ ضلع میں حکم امتناع نافذ کر دیا ہے۔

وزیرِ داخلہ کا دورہ منسوخ

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اتوار کو سہسرام میں ہونے والا اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ انہوں نے تشدد کے سلسلے میں ریاستی گورنر سے گفتگو کی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو ہندو برادری کے مذہبی تہوار رام نومی کے جلوس کے موقع پر ملک کے مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات ہوئے تھے جس کے نتیجے میں کشیدگی پیدا ہوئی۔

بہار میں بھی جمعرات سے ہی کشیدگی تھی۔ بہار شریف میں جمعے کو بھی دو گروپوں میں تصادم ہوا تھا۔

ضلع مجسٹریٹ ششانک شوبھانکر کے مطابق نالندہ او روہتاس میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

سیکیورٹی فورسز تعینات

اشتعال انگیزی پر قابو پانے کے لیے سوشل میڈیا کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔ وزارت داخلہ نے حالات پر قابو پانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے اضافی دستے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امت شاہ نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ریاست کے گورنر راجیندر آرلیکر سے بات کی۔

پولیس نے ان رپورٹس کو بے بنیاد قرار دیا ہے کہ سہسرام کے ہندو علاقے سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کے لیے کچھ شرپسند عناصر ذمہ دار ہیں۔ رام نومی کے جلوس کے موقع پر بہار شریف اور سہسرام میں ہونے والی فرقہ وارانہ کشیدگی باعث تشویش ہے۔

ان کے مطابق اس علاقے میں پہلی بار ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ شرپسند افراد کی شناخت کرکے ان کے خلاف کارروائی کرے۔

صورتِ حال پر امن ہونے کا دعویٰ

پولیس انسپکٹر سریندر پاسوان نے خبر رساں ادراے ‘اے این آئی’ کو بتایا ہے کہ بہار شریف میں صورت حال معمول کے مطابق ہے۔ حکم امتناع نافذ کر دیا گیا ہے اور شہر میں اضافی پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے۔

نالندہ کے ضلع مجسٹریٹ ششانک شوبھانکر کے مطابق گزشتہ شب بہار شریف کے کچھ مقامات پر تشدد کے تازہ واقعات پیش آئے۔ لیکن صور ت حال پرامن ہے۔ کرفیو نافذ کرنے کے بجائے دفعہ 144 لگا دی گئی ہے۔ متعدد شرپسندوں کی شناخت کر لی گئی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے پرتشدد کارروائیوں پر اظہا رافسوس کیا ہے اور اس کے لیے انتظامیہ کی سستی اور ناکارکردگی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

حکومت پر الزامات

انسانی حقوق کے کارکن، سابق رکن پارلیمان اور ’انڈین مسلم فار سول رائٹس‘ کے صدر محمد ادیب کا کہنا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے لہٰذا جان بوجھ کر اس قسم کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں تاکہ حکمراں جماعت کو انتخابات میں فائدہ پہنچے۔ ان کے بقول یہ 2024 کے عام انتخابات کی تیاری ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب تک رام نومی کے موقع پر مندروں میں پوجا ہوتی رہی ہے لیکن اب جلوس نکالا جاتا ہے اور مسجدوں کے سامنے ٹھہر کر تلواریں لہرائی جاتی ہیں۔

واضح رہے کہ اس وقت سوشل میڈیا میں ایسی متعدد ویڈیوز وائرل ہیں جن میں مسجدوں اور درگاہوں کے باہر دیر تک کھڑے ہو کر مبینہ طور پر اشتعال انگیز نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

محمد ادیب کے مطابق ان شرپسندوں کو انتظامیہ کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اگر اشتعال انگیزی پر اعتراض کیا جائے یا کوئی ایک پتھر پھینک دے تو کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے مذہبی جلوس پر پتھراؤ کیا۔

ان کے مطابق بہار شریف میں مسلمانوں کی دکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ دو روز کے دوران پیش آنے والے واقعات کی ویڈیوز منگوا کر دیکھی ہیں جن میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کے سامنے گھنٹوں نعرے بازی کی گئی اور تلواریں لہرائی گئیں۔

جلوس نکالنے کی اجازت نہیں تھی

رپورٹس کے مطابق مختلف ریاستوں میں انتظامیہ کی جانب سے جلوس نکالنے کی اجازت نہ دیے جانے کے باوجود جلوس نکالے گئے۔ دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں جہاں گزشتہ سال اسی موقع پر تشدد برپا ہوا تھا، پولیس کی اجازت کے بغیر جلوس نکالا گیا اور رپورٹس کے مطابق پولیس نے نہ تو کسی کے خلاف رپورٹ درج کی اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا۔

محمد ادیب کے مطابق مغربی بنگال کے ہوڑہ اور دیگر علاقوں میں ہونے والے تشدد کے الزام میں پولیس نے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ جن کو بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کی ذیلی تنظیموں کے رکن ہیں۔

بی جے پی کے لوگوں کو ان گرفتاریوں پر اعتراض ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2014 کے بعد عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ملک میں تمام مسائل کے ذمہ دار مسلمان ہیں۔ اسی لیے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کے خلاف تشدد برپا کیا جاتا ہے اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

یاد رہے کہ حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ وہ مذہب کے نام پر امتیاز میں یقین نہیں رکھتی اور اس کے فلاحی منصوبے تمام عوام کے لیے ہوتے ہیں۔ حکومت اپنے کام بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگتی ہے اور لوگ اس کی کارکردگی دیکھ کر اسے ووٹ دیتے ہیں۔

’امت شاہ کو ریاست کی 40 لوک سبھا نشستوں کی فکر ہے‘

امت شاہ کی جانب سے گورنر سے بات کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے ریاست کے حکمراں محاذ میں شامل راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کا کہنا ہے کہ امت شاہ کو بہار کی فکر نہیں ہے بلکہ ریاست کی 40 لوک سبھا نشستوں کی فکر ہے۔

پارٹی ترجمان مرتونجے تیوار کے مطابق ریاست میں نظم و نسق کا انتظام وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امت شاہ کو بی جے پی حکومت والی ریاستوں کی فکر کرنی چاہیے نہ کہ بہار کی۔ جب کہ ریاستی بی جے پی کے صدر سمراٹ چودھری نے سہسرام میں ہندو حکمراں راجہ اشوک کے یوم پیدائش سے متعلق تقریبات کو منسوخ کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو مورد الزام ٹھہرایا۔

ادھر مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے الزام لگایا کہ بہار اور مغربی بنگال کی حکومتوں میں مقابلہ چل رہا ہے۔ ممتا بنرجی اقلیتوں کو خوش کرنے کی پالیسی پر چل رہی ہیں اور نتیش کمار ان کی پیروی کر رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG