رسائی کے لنکس

کیا بھارتی میزائل کی حادثاتی لانچنگ کسی بڑے خطرے کا سبب بن سکتی تھی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے ایک میزائل کے پاکستان کی حدود میں گرنے کے واقعے پر نئی دہلی میں ماہرین کی جانب سے شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور جہاں ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ اس سے دو جوہری طاقتوں میں کشیدگی بڑھ سکتی تھی تو وہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہتھیاروں کے تحفظ کے حوالے سے بھارت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

بھارتی حکومت نے پاکستان میں گرنے والے میزائل کے بارے میں اگرچہ کوئی تفصیل نہیں بتائی ہے البتہ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ آواز سے تین گنا تیز رفتار برہموس کروز میزائل تھا۔ حکومت کے مطابق تکنیکی غلطی سے میزائل چلا اور پاکستان میں جا گرا ۔ اس نے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اس سلسلے میں مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس پر بھارت کا تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ پاکستان نے خطے میں اسٹریٹجک استحکام کو فروغ دینے کے لیے عالمی برادری سے تعاون کی اپیل کی ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اتوار کو نئی دہلی میں سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کا ایک اجلاس طلب کیا تھا جس میں روس اور یوکرین جنگ کے تناظر میں عالمی صورتِ حال اور بھارت کی دفاعی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔ اسی دوران تینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور سینئر سیکیورٹی حکام نے بھی وزیرِ اعظم سے ملاقات کی اور داخلی و بیرونی سلامتی کا جائزہ لیا۔

’یہ لاپروائی کا معاملہ لگتا ہے‘

بھارت کے میزائل کی پاکستان کے حدود میں گرنے کے حوالے سے سینئر دفاعی تجزیہ کار ایئر مارشل (ریٹائرڈ) کپل کاک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ میزائل تکنیکی غلطی یا لاپروائی سے لانچ ہوا۔ یہ تشویش کا معاملہ ضرور ہے اور اس میں لاپروائی ہی نظر آتی ہے۔ لیکن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ میزائل میں کوئی نیوکلیئر وارہیڈ نہیں تھا اور وہ ایک خالی میزائل تھا۔

بعض ماہرین کے مطابق پاکستان کا یہ کہنا درست ہے کہ ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کم مسافت اور کسی بھی جانب سے میزائل داغے جانے اور غلط تاویل کی وجہ سے کم سے کم وقت میں جوابی دفاعی کارروائی کے امکان کے سنگین نتائج ہو سکتے تھے۔

’جوہری استحکام پر کوئی اثر نہیں پڑا‘

کپل کاک کہتے ہیں کہ اس واقعے کا دونوں ممالک کے جوہری استحکام پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دونوں کا دفاعی و جوہری تعلق قابو میں ہے۔ دراصل کسی بھی قسم کی ملٹری کارروائی بہت احتیاط سے کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ اگلی بار اگر کوئی میزائل گرا تو پاکستان جوہری میزائل لانچ کر دے گا، درست نہیں ہے۔ پاکستان ایسا کبھی نہیں کرے گا۔حالیہ واقعے کے بارے میں پاکستان نے کافی سنجیدگی اور شائستگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

ان کے مطابق مغربی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو جوہری معاملات کی سمجھ نہیں ہے یا وہ ان ممالک کو ذمہ دار ملک نہیں سمجھتے۔ جنوری میں دونوں ملک اپنے جوہری معاملات پر اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

’دونوں ممالک کو بات کرنی چاہیے‘

کپل کاک نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی صورت حال ہے۔ کشمیر سمیت دیگر مسائل ہیں۔ گزشتہ چھ برس سے باہمی تعلقات بالکل نچلی سطح پر ہیں اور بات چیت بند ہے۔ تاہم وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس معاملے میں دونوں ممالک کو بات کرنی چاہیے اور اعتماد کی بحالی کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں کے درمیان بات چیت جاری رہنی چاہیے۔ یہ سلسلہ بند نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق ایسے حادثات تو پاکستان سے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس وقت بھارت کا کیا ردِ عمل ہوگا۔ ان کے مطابق یہ سوال اٹھانا غلط ہے کہ اگر پاکستان نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو کیا ہوتا؟

انہوں نے کہا کہ جوہری معاملات بہت نازک ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ اس حادثے کے بعد پاکستان جوہری کارروائی کر دیتا۔ دونوں ممالک نے 1998 میں جوہری تجربے کیے تھے اسے 24 سال ہو گئے ہیں اور اس کے بعد سے دونوں نے کافی سنجیدگی دکھائی ہے۔

ان کے مطابق کوئی ملک ایسے معاملات میں کچھ جوابی کارروائی کرنے کا اشارہ تو دے سکتا ہے۔ تاہم ایسے معاملات کا ملک کی سیاست سے بھی تعلق ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی حکومت نے اپنے عوام کو دکھانے کے لیے بالاکوٹ میں کارروائی کی تھی۔ لہٰذا بالاکوٹ کے بعد پاکستان نے بھی کارروائی کی لیکن پھر بھارت نے کشیدگی کو بڑھانے کی کوئی کارروائی نہیں کی۔

’مشترکہ تحقیقات ناممکن‘

کپل کاک نے پاکستان کی جانب سے اس واقعے پر مشترکہ تحقیقات کے مطالبےپر کہا کہ جب دونوں ممالک ایک دوسرے سے گفتگو ہی نہیں کر رہے ہیں تو پھر مشترکہ جانچ کیسے ہو گی؟

انہوں نے 2016 میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر ہونے والے دہشت گرد حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو اس کی اجازت دی تھی کہ وہ تحقیقات میں شریک ہو اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اہل کار پٹھان کوٹ ایئر بیس پر آئے بھی تھے البتہ تحقیقات کا کیا بنا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟

ان کے مطابق اگر بھارت یہ پیشکش کر دے کہ پاکستان جوہری امور کے کسی ماہر کو بھیج دے جو جانچ میں حصہ لے تب بھی تحقیقات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا کیوں کہ کوئی بھی ملک اپنے جوہری آلات اور ٹیکنالوجی کے بارے میں کسی دوسرے ملک کو کچھ نہیں بتا سکتا۔

ان کے مطابق پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ مطالبہ ملک کی سیاست کے پیشِ نظر ہو سکتا ہے۔

نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں شعبۂ بین الاقوامی امور میں درس و تدریس سے وابستہ ہیپی مون جیکب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے معاملات میں مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ کرنا آسان ہے البتہ اس پر عمل کرنا کام مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے اور اس میں مشترکہ جانچ ہو ہی نہیں سکتی۔

انہوں نے بھی پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کی مشترکہ جانچ کا ذکر کیا اور کہا کہ بھارت نے تو آئی ایس آئی کے ایجنٹس کو یہاں کا دورہ کرنے کی اجازت دی تھی لیکن پاکستان نے بھارت کے نمائندوں کو مدعو نہیں کیا۔

’پاکستان نے تحمل سے کام لیا‘

انہوں نے ا س واقعے کے بعد پاکستان کے رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام آباد نے بہت تحمل سے کام لیا ہے۔ اس نے اس معاملے کو پیشہ ورانہ انداز میں لیا۔

انہوں نے پاکستان کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ا س کا اعتراف کیا تھا کہ بھارت نے جان بوجھ کر میزائل فائر نہیں کیا بلکہ یہ غلطی سے ہوا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر میزائل کسی اسٹریٹجک علاقے میں، کسی اسکول پر یا گنجان آبادی والے علاقے میں گرا ہوتا تو یہ معاملہ دوسرا رنگ لے لیتا۔ ایسے میں پاکستان کو کارروائی کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اس حادثے میں کسی کی ہلاکت نہیں ہوئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان میں انتخابات ہو رہے ہوتے تو اس وقت یہ معاملہ دوسرا رخ اختیار کر لیتا۔

ان کے مطابق اس معاملے میں پاکستانی میڈیا کی بھی تعریف کرنی ہوگی کہ اس نے ہتھیاروں کے تحفظ میں بھارت کی ناکامی وغیرہ کا ہی ذکر کیا۔ اس نے اسے دوسرا رنگ دینے کی کوشش نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے اندر اگر پاکستان کا میزائل گرا ہوتا تو یہاں کے میڈیا پر جنگ کی کیفیت طاری ہو جاتی۔

’ایسے واقعات پہلے بھی ہوئے ہیں‘

کپل کاک نے بتایا کہ ایسا واقعہ پہلی بار نہیں ہوا ۔ 1998 میں امریکہ کے ایک کروزمیزائل ٹام ہاک کو افغانستان میں ایک ہدف کے لیے چھوڑا گیا تھا لیکن غلطی سے کوئٹہ کے پاس گرا تھا۔ دوسری بار 2011 میں جب امریکہ نے اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر حملہ کیا تو اس نے یو ایس60 اسٹیلتھ فیچر کے ایک ہیلی کاپٹر کو وہاں چھوڑ دیا تھا۔ اس پر لوگوں کو حیرانی تھی کہ امریکہ نے اسے تباہ کیوں نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان میں گرنے والا میزائل پوری طرح تباہ ہوا ہے یا نہیں۔ اگر وہ پوری طرح تباہ نہیں ہوا ہے تو اس میں جو کچھ آلات ہوں گے پاکستان ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

سیکیورٹی رِسکس کنسلٹنسی گروپ سے وابستہ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) راہول بھونسلے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی نااہلی یا لاپروائی یا دونوں کی وجہ سے بھارت کا میزائل پاکستان میں جا کر گرا۔ اس واقعے نے دو جوہری قوتوں کے درمیان سنگین اور حساس آپریشنل معاملات میں بھارت کو بدنام اور شرمندہ کرنے کا موقع دیا۔

بھارت میں مختلف اخبارات میں اس حوالے سے اداریے بھی شائع ہوئے ہیں جن میں بعض اخبارات نے تحریر کیا ہے کہ پاکستان نے اس واقعے کے تناظر میں بھارت سے کئی جائز سوالات پوچھے ہیں۔

’پاکستان نے کارروائی کی ہوتی تو بحران پیدا ہو جاتا‘

بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) راہول بھونسلے کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس میزائل کے بارے میں چوں کہ یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ خالی ہے یا اس میں وار ہیڈ ہے اگر وہ کوئی کارروائی کر دیتا تو ایک بحران پیدا ہو جاتا۔

نئی دہلی کے بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان داخلی معاملات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اس معاملے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG