رسائی کے لنکس

بھارت: فیض کی نظمیں نصاب سے خارج،'عوام مخالف حکومت فیض کی شاعری برداشت نہیں کرسکتی'


اردو کے معروف شاعر فیض احمد فیض کی دو نظمیں بھارتی حکومت کے مرکزی تعلیمی ادارے سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کے دسویں جماعت کے نصاب سے خارج کرنے پر حکومت اور متعلقہ ادارے کو سیاست دانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، دانشوروں، شعرا اور ادبا کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔

اس فیصلے کو حکومت کی تنگ نظری قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے دنیا میں ایک غلط پیغام گیا ہے۔ علمی حلقے اس فیصلے کی مذمت کر رہے اور تعلیمی نصاب کو بھی سیاست زدہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔

البتہ سی بی ایس ای کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی 'نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ' (این سی ای آر ٹی) کی سفارش پر کی گئی ہے۔ اس نے ماضی میں بھی بعض اسباق ہٹائے تھے۔

سن 2020 میں بورڈ نے کہا تھا کہ وہ وفاقیت، شہریت، قومیت اور سیکولرزم کے اسباق کو گیارہویں جماعت کے پولیٹیکل سائنس کے نصاب میں شامل کرنے پر غور نہیں کرے گا۔ البتہ ایک تنازع کے بعد یہ اسباق شامل کیے گئے تھے۔

اس مرتبہ فیض کی جو دو نظمیں دسویں جماعت کے نصاب سے ہٹائی گئی ہیں وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے این سی ای آر ٹی کے سیگمنٹ 'مذہب، فرقہ واریت اور سیاست: فرقہ واریت اور سیکولر اسٹیٹ' کا حصہ رہی ہیں۔

اردو کی معروف ویب سائٹ' ریختہ ڈاٹ او آر جی 'کے مطابق ان نظموں کا عنوان 'آج بازار میں پابہ جولاں چلو' اور 'ڈھاکہ سے واپسی پر' ہے۔

ان نظموں میں سے ایک کے چند اشعار کچھ اس طرح ہیں:

چشمِ نم جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پا بجولاں چلو

دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

'ریختہ 'کے مطابق فیض نے یہ نظم اس وقت کہی تھی جب انہیں دانت میں درد کی شکایت پر ہتھکڑی لگا کر لاہور جیل سے دانتوں کے ایک ڈاکٹر کے پاس تانگے میں لے جایا جا رہا تھا۔ انہیں لوگوں نے پہچان لیا تھا اور بہت سے لوگ تانگے کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔

دوسری نظم کے چند اشعار کچھ یوں ہیں:

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی

کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

ریختہ کے مطابق فیض نے یہ نظم 1974 میں بنگلہ دیش سے واپس کی بعد کہی تھی۔

سی بی ایس ای نے ان نظموں کے علاوہ افرو ایشیائی خطے میں مسلم دورِ حکمرانی، مغل نظامِ عدل اور دیگر اسباق بھی نصاب سے باہر کر دیے ہیں۔ اس اقدام کی بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے اوربھارت کو مبینہ طور پر ہندوریاست بنانے کی جانب ایک قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

ایمنسٹی نے فیصلہ کم درجے کا قرار دے دیا

انسانی حقوق کے عالمی ادارے 'ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا ' کے چیئرمین آکار پٹیل نے ایک ٹوئٹ میں فیصلے کو ایک کم درجے کا فیصلہ قرار دیا ہے جب کہ بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے سی بی ایس ای کے اس فیصلے کو تعلیمی تنوع کو کترنے والا قرار دیا۔

واضح رہے کہ سال 2019 میں نریندر مودی حکومت نے بھارت کے شہریت قانون(سی اے اے) میں ترمیم کی تھی اور پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستا ن سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کے بعد بھارت آنے والوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔اور اس سے مسلمانوں کو الگ رکھا گیا تھا ۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

احتجا ج کے دوران ہی ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرین فیض احمد فیض کی نظم 'ہم دیکھیں گے' پڑھ رہے تھے۔ اس نظم میں جابر حکمرانوں کو للکارا گیا ہے۔ آئی آئی ٹی کانپور نے فیض کی نظم پڑھنے پر پابندی لگادی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان کے ایک اور شاعر حبیب جالب کی نظم 'دستور' بھی زبان زدِ عام تھی جس میں وہ کہتے ہیں کہ 'ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔'

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت ان دونوں نظموں سے پریشان تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس نے فیض کی مزید دو نظموں کو نصاب سے خارج کر دیا ہے۔

'نظموں کو سیاست کی وجہ سے نکالا گیا ہے'

دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر اور معروف نقاد پروفیسر عتیق اللہ کے مطابق فیض کی نظموں کو محض سیاست کی وجہ سے نکالا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ شاید اس لیےفیض کی نظمیں ہٹائی گئیں کہ انہیں پاکستانی سمجھا گیا جب کہ ان نظموں کے پیچھے جو جذبہ ہے وہ بھارت کے حق میں ہے۔

دہلی اردو اکیڈمی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول کا کہنا ہے کہ فیض کی نظمیں اس لیے ہٹائی گئیں کہ ایک تو وہ مسلمان ہیں اور دوسرا یہ کہ پاکستانی ہیں جب کہ وہ ارباب اقتدار کے خلاف احتجاج بلند کرتے رہے ہیں۔ ان کے بقول فیض پاکستان کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے شاعر ہیں۔

الہ آباد یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے ایک سابق صدر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ فیض جیسے شاعر کو اگر پاکستانی مانا جائے تو یہ افسوسناک بات ہوگی۔

ان کے بقول شاعر اور شاعری کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک۔ شاعر و فنکار سب کے ہوتے ہیں۔ فیض پاکستان سے زیادہ بھارت میں مقبول ہیں اور پڑھے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق فیض کی شاعری میں ارباب اقتدار کے خلاف احتجاج ہے جس کی وجہ سے حکومتیں انہیں ناپسند کرتی ہیں۔

انہوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ سی اے اے مخالف احتجاج کے دوران فیض کی نظم 'ہم دیکھیں گے' سب سے زیادہ پڑھی جا رہی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ فیض کی نظمیں ہٹانے کا بظاہر ایک سبب یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔

'حکومت بائیں بازو کے نظریات کے حامل دانشوروں سے زیادہ خطرہ محسوس کرتی ہے'

بعض مبصرین کے مطابق موجودہ حکومت کو بائیں بازو کے نظریات کے حامل دانشوروں سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ حکومت نے فیض کی نظمیں اس لیے نہیں ہٹائیں کہ وہ مسلمان تھے بلکہ اس لیے کہ وہ جابر حکمرانوں کے خلاف تھے اور بقول ان کے کوئی بھی عوام مخالف حکومت ان کی شاعری کو برداشت نہیں کر سکتی۔

فیض کے علاوہ حبیب جالب، ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی بھی اقتدار مخالف شاعر تھے۔ ساحر لدھیانوی نے کانگریس کے زمانے میں احتجاجی نظمیں لکھیں اور کہا کہ 'اردو پہ ستم ڈھا کر غالب پہ کرم کیوں ہے۔' یہ تمام شعرا بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے اور اقتدار کے خلاف تھے۔

پروفیسر شہپر رسول وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ فیض کی نظم 'ہم دیکھیں گے' بھارت کے خلاف نہیں تھی۔ وہ تو پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف تھی۔ البتہ بھارت میں ایسے حالات بنے کہ وہ یہاں استعمال ہو گئی۔

ان کے بقول فیض کی نظموں کو نصاب سے نکالنا ناانصافی ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں شعبہ اردو کے استاد اور ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے چیئرمین پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے کم نظری پرمبنی قرار دیا اور کہا کہ ہمارے تعلیمی کینوس کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کے مطابق جو لوگ یہ کوشش کر رہے ہیں ان کی نظریں تعلیم پر کم اور سیاست پر زیادہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سےگفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی وجہ سے پوری دنیا کے تعلیم یافتہ افراد بھارت کی کم نظری پر اظہار افسوس کر رہے اور اس فیصلے کی مذمت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ان لوگوں کا ہو سکتا ہے جو ادب کو نہیں جانتے۔ ادب اس قسم کی چیزوں سے بالاتر ہے۔انہوں نے بھی اس سے انکار کیا کہ فیض پاکستان کے شاعر ہیں۔

ادھرمعروف صحافی سگاریکا گھوش نے 1981 میں بی جے پی رہنما اٹل بہاری واجپائی اور فیض احمد فیض کی ملاقات کی تصویر ٹوئٹ کی ہے اورلکھا ہے کہ وقت کیسے بدل گیا ہے۔ اُس وقت سرحد پار کے کسی شاعر کا مداح ہونا ملک دشمن ہونا نہیں ہوتا تھا۔

خیال رہے کہ بھارت کے سابق وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپائی فیض احمد فیض کی شاعری کے مداح تھے۔

'فیض زندہ ہوتے تو بھارت کو پسند نہیں کرتے'

ایک اور صحافی صبا نقوی نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ جب پاکستان کی حکومت نے فیض پر پابندی لگا دی تھی تو انہوں نے بھارت میں بھی پناہ لی تھی۔ اس وقت انہوں نے ان سے ملاقات کی تھی۔ ان کے بقول اگر آج فیض زندہ ہوتے تو بھارت کو پسند نہیں کرتے۔

کانگریس کے رہنما نتن راوت نے اپنے ٹوئٹ میں فیض کی تصویر کے ساتھ ان کا یہ شعر لکھا کہ 'کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت۔ چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے۔'

معروف صحافی راج دیپ سردیسائی اور دیگر شخصیات نے بھی سی بی ایس ای کے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔ متعدد سوشل میڈیا صارفین بھی اس فیصلے پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارت میں مختلف اسکولی نصابوں میں فیض کے علاوہ اقبال، ناصر کاظمی اور تھوڑا بہت حفیظ جالندھری کا کلام بھی شامل ہے۔

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں استاد پروفیسر سراج اجملی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کے ایسے کئی شعرا ہیں جن کا کلام اگر چہ نصاب میں شامل نہیں ہے لیکن ریسرچ کے دوران ان کا حوالہ اکثر آتا ہے۔

ان شعرا میں حبیب جالب، احمد فراز، پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض قابل ذکر ہیں۔ ان کے بقول جب بھی احتجاجی شاعری کا ذکر ہوتا ہے تو حبیب جالب کا حوالہ لازمی طور پر آتا ہے۔

بعض سوشل میڈیا صارفین یہ تک کہہ رہےہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ طبقات جو علامہ اقبال کو پاکستانی تصور کرتے ہیں، حالانکہ ان کا انتقال 1938 ہی میں ہو گیا تھا، یہ مطالبہ کر بیٹھیں کہ اقبال کے ترانہ ہندی 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا' پر بھی پابندی لگا دی جائے۔

ان کے بقول بھارت میں جب ملبوسات کی کمپنی فیب انڈیا کے ایک اشتہار کو محض اردو لفظ کا استعمال ہونے پر ہٹا دیا گیاتو پھر اس قسم کے مطالبات بعید از قیاس نہیں ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG