سپین میں کرونا وائرس کی دوسری لہر، اموات میں اضافہ
اسپین میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد کرونا وائرس سے ایک دن میں ساڑھے چھ سو اموات ہوئی ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یورپی ملک کو وبا کی دوسری لہر کا سامنا ہے۔
ادھر برازیل میں دوسری بار ایک دن میں 110 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، جبکہ بھارت میں ایک دن میں ریکارڈ تعداد میں کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی اور ورڈومیٹرز کے مطابق، دنیا بھر میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد جمعہ کو 52 لاکھ 80 ہزار اور اموات 3 لاکھ 38 ہزار سے زیادہ ہوچکی تھیں۔
24 گھنٹوں کے دوران برازیل میں 1188، اسپین میں 688، میکسیکو میں 420، برطانیہ میں 351، روس میں 150، بھارت میں 142، اٹلی میں 130 اور ایکویڈور میں 117 مریض چل بسے۔
امریکہ میں جمعہ کی شام تک 1179 ہلاکتوں کی خبر آچکی تھی جس کے بعد کل تعداد ساڑھے 97 ہزار سے بلند ہوچکی ہے۔ ملک میں کیسز کی تعداد 16 لاکھ 40 ہزار سے زیادہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرونا وائرس سے بڑی تعداد میں اموات کی وجہ سے قومی پرچم تین دن تک سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور اسپین کے بعد برازیل چھٹا ملک ہے جہاں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 20 ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے جبکہ امریکہ اور روس کے بعد وہ صرف تیسرا ملک ہے جہاں تین لاکھ سے زیادہ کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔
ان تمام ممالک سے زیادہ کیسز اور ہلاکتیں صرف ایک امریکی ریاست نیویارک میں سامنے آچکی ہیں۔ وہاں مریضوں کی کل تعداد 3 لاکھ 67 ہزار اور اموات کی تعداد 29 ہزار سے زیادہ ہے۔
بھارت میں وزارت صحت کے مطابق، 24 گھنٹوں میں چھ ہزار سے زیادہ مریضوں کی تصدیو ہوئی جو ملک میں ایک دن میں معلوم ہونے والے کیسز کا نیا ریکارڈ ہے۔
اب تک دنیا بھر میں 21 لاکھ 40 ہزار افراد کرونا وائرس سے شفایاب ہوچکے ہیں جن میں امریکہ کے لگ بھگ چار لاکھ شہری شامل ہیں۔ مزید جن ملکوں میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد صحت یاب ہوئے ہیں ان میں اسپین، جرمنی، اٹلی، برازیل، ترکی اور ایران شامل ہیں جبکہ روس میں یہ تعداد 99 ہزار ہے۔
کرونا وائرس: آٹھ کروڑ بچوں کو حفاظتی ویکسین نہیں دی جا سکی
کرونا وائرس جہاں زندگی کے روزمرہ کے معمولات اثرانداز ہوا ہے، وہاں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں بھی خلل پڑا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ 8 کروڑ بچوں کو خسرہ، پولیو اور ہیضے سے بچاؤ کے ٹیکے نہیں لگ پا رہے، جس سے ایک سال سے کم عمر بچوں کی صحت کے لیے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
جمعے کے روز جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحت کے عہدے داروں نے خبردار کیا ہے کہ 129 ملکوں میں سے نصف سے زیادہ میں حفاظتی ٹیکوں کے مارچ اور اپریل کے پروگرام پر عمل نہیں ہو سکا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریسس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں خلل پڑ گیا ہے، جس سے خسرہ جیسی بیماریوں سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کئی عشروں سے جاری کوششوں کے لیے خطرات پیدا ہو گئی ہیں۔
ایک اور عالمی ادارے یونیسیف نے بھی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افریقہ کے 40 سے زیادہ ملکوں میں بچوں کے لیے حفاظتی ویکسین فراہم نہیں کی جا سکی، کیونکہ براعظم کے 54 ملکوں نے کوویڈ 19 کی وجہ سے اپنے ایئرپورٹ بند کر دیے ہیں جس کی وجہ سے فلائٹس دستیاب نہیں ہیں۔
عہدے داروں نے کہا ہے کہ دنیا کے 38 ملکوں میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے 46 پروگرام معطل کر دیے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ملکوں سے ہے۔ جب کہ 27 ملکوں میں خسرہ سے بچاؤ کے ٹیکوں کی مہم بھی معطل کر دی گئی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو دو سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے حفاظتی ٹیکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اپریل میں ڈبلیو ایچ او، اور اس کے شراکت داروں نے کرونا وائرس کے باعث پولیو سے بچاؤ کی ویکیسن کی مہم معطل کر دی تھی جس سے پانی سے پھیلنے والے اس وبائی مرض کے دوبارہ ابھرنے کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
پولیو پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ 90 فی صد سے زیادہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں۔ یہ کام بہت بڑے پیمانے پر کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی مدد سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن کرونا سے بچاؤ کے لیے سماجی فاصلے قائم رکھنے کی پابندی سے یہ مہم بھی التوا کا شکار ہو چکی ہے۔
افریقہ کے ایک درجن سے زیادہ ملکوں نے اس سال پولیو کے واقعات دوبارہ ظاہر ہونے کی اطلاع دی ہے، جب کہ اس سے قبل طبی ماہرین یہ توقع کر رہے تھے کہ سن 2000 میں پولیو کا دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے دنیا کے ملکوں کے لیے یہ ہدایت جاری کرے گا کہ وہ کرونا وائرس کے دوران بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام کس طرح جاری رکھ سکتے ہیں۔
جنوبی امریکہ عالمی وبا کا نیا مرکز بن سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت
یورپ اور امریکہ میں تباہی پھیلانے کے بعد عالمی وبا کوویڈ 19 کا رخ اب براعظم جنوبی امریکہ کے ملکوں کی طرف ہو گیا ہے اور عالمی ادارہ صحت کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی امریکہ عالمی وبا کا ایک نیا مرکز بن گیا ہے جہاں برازیل سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن کر سامنے آیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ براعظم افریقہ میں بھی کرونا وائرس اپنے پاؤں جما رہا ہے، لیکں وہاں اموات کی شرح نسبتاً کم ہے۔
جمعے کے روز عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ براعظم افریقہ میں کرونا کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ اس براعظم میں پہلا مریض 14 ہفتے قبل رپورٹ ہوا تھا۔ اس کے بعد اب اس غریب اور پس ماندہ براعظم میں کوئی ملک ایسا نہیں بچا جہاں کوویڈ 19 کے نقش موجود نہ ہوں۔ وہاں اب تک 3100 اموات کی تصدیق ہو چکی ہے۔
افریقہ کے لیے عالمی ادارہ صحت کی علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر مٹشی ڈیسو موئٹی نے کہا ہے کہ اب کوویڈ 19 پورے براعظم میں واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے، تیزی سے پھیل رہا ہے اور اموات کی تعداد بھی بڑھتی جار ہی ہے۔
بوٹسوانا سے تعلق رکھنے والی صحت کے عالمی ادارے کی علاقائی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ہمیں اس کی روک تھام کے سلسلے میں لا پرواہی نہیں برتنی چاہیے کیونکہ ہمارے ہاں صحت کی سہولتیں اور نظام بہت کمزور ہے اور ہم مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ افریقہ کے تقریباً آدھے ملکوں میں یہ وبا کمیونٹی کی سطح پر پھیل رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے شعبے کے ایک عہدے دار ڈاکٹر مائیک ریان کہتے ہیں کہ جنوبی امریکہ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی صورت حال پریشان کن نظر آ رہی ہے۔
انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ بظاہر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جنوبی امریکہ اب عالمی وبا کا ایک نیا مرکز بننے جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برازیل جنوبی امریکہ کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن چکا ہے اور وہاں حکام نے کوویڈ 19 کے علاج کے لیے ملیریا کی دوا ہائیڈرو کلورو آکسی کونین استعمال کرنے کی منظوری دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسپتالوں سے حاصل ہونے والے شواہد یہ ظاہر نہیں کرتے کہ کونین عالمی وبا کے علاج میں فائدہ مند ہے، بلکہ اس کے استعمال سے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ریان نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جنوبی امریکہ کے 9 ملکوں میں کرونا وائرس کے کیسز میں 50 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے، جب کہ دوسری جگہوں پر یا تو وبا کی شدت کم ہو رہی ہے یا پھر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اموات کی تعداد کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس براعظم کی تقریباً نصف آبادی کی عمریں 18 سال یا اس سے کم ہیں۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ انہیں براعظم میں بیماری کے پھیلاؤ کی رفتار پر تشویش ہے اور آنے والے دنوں میں انتہائی نگہداشت کے شعبوں میں بہت زیادہ تعداد میں وینٹی لیٹرز، آکسیجن اور ہنگامی طبی سہولتوں کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔