کرونا سے نمٹنے کے لیے مختص صرف 25 فی صد وسائل استعمال ہوئے: ڈاکٹر ظفر مرزا
وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقامی سطح پر وائرس کی متنقلی 92 فی صد ہے۔ لہذٰا کیسز بھی بڑھیں گے اور اموات بھی ہوں گی۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کے بقول پاکستان میں کرونا سے نمٹنے کے لیے مختص کردہ وسائل میں سے تاحال 25 فی صد بھی استعمال نہیں ہوئے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ عوامی مقامات یا پرہجوم علاقوں میں ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ان مقامات میں مساجد، بازار، دکانیں، شاپنگ مالز، پبلک ٹرانسپورٹ میں ماسک پہننا لازمی ہو گا۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران وائرس کے باعث ہلاک ہونے والوں میں چار طبی عملے کے اراکین بھی تھے۔
ظفر مرزا کہتے ہیں کہ طبی عملہ مریضوں کی دیکھ بھال کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ اکا دکا واقعات میں غفلت کی شکایت ہو سکتی ہے۔ لیکن اسپتالوں میں ہنگامہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔
- By قمر عباس جعفری
ویکسین کے آنے تک کرونا وائرس کہیں نہیں جائے گا
پوری دنیا میں کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ کے ہندسے سے بڑھ گئی ہے۔
ہفتے کی سہ پہر تک جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 61 لاکھ سے زیادہ ہو چکی تھی۔
امریکہ بدستور مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ جہاں اس مرض میں مبتلا لوگوں کی تعداد 18 لاکھ سے زیادہ ہے۔ جب کہ ایک لاکھ پانچ ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔
برازیل اس فہرست میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، جہاں مریضوں کی تعداد چار لاکھ 70 ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 28 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے فیرن رابنسن کے مطابق دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ اس وبا کا تباہ کن اثر امریکی ریاست نیوڈا میں کیسینو اور دوسرے کاروباروں ہر بھی پڑ رہا ہے۔ ریاستی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ٹیکس کی ماہانہ وصولی میں سو فیصد اور سیاحت میں 97 فیصد کمی آئی ہے۔
یہ صورت حال امریکہ کی صرف ایک ریاست کی نہیں ہے بلکہ کم و بیش ہر ریاست، بلکہ ساری دنیا کی ہے، جہاں معیشتوں کی زبوں حالی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وائرس سے کب نجات ملے گی، تو اس بارے میں ماہرین یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کیسے دنیا کو اس سے چھٹکارہ ملے گا۔ لیکن ماہرین تقریباً اس پر متفق ہیں کہ جب تک کوئی موثر ویکسین نہ آ جائے۔ یہ وائرس زندگی بھر ہی ساتھ رہ سکتا ہے۔
یہ ہی بات یونیورسٹی آف ایدن برگ کے متعدی امراض کے ماہر مارک وول ہاؤس نے برطانوی اخبار گارڈین کو بتائی ہے کہ ویکسین اور سماجی فاصلے پر عمل کئے بغیر اس کی دوسری لہر ایک حقیقی خطرہ ہے۔
یہاں امریکہ میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر سہیل چیمہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خیال سے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ وائرس یقیناً اس وقت تک ساتھ رہے گا جب تک کہ ویکسین نہیں آ جاتی اور اس کے مارکیٹ ہونے کے بعد ہر شخص اسے لگوانے پر آمادہ نہیں ہو جاتا۔
انہوں نے کہا کہ اس قسم کے امراض میں انسان کی قوت مدافعت 60 سے 66 فیصد ہونی چاہئیے اور جب تک یہ قوت مدافعت 66 فیصد پر نہ آ جائے گی، یہ خطرہ ختم نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح چیچک سے 30 ملین اموات ہوئیں اور ویکسین آنے کے بعد وہ مرض ختم ہو گیا، اسی طرح اس وائرس کے ساتھ بھی ہو گا اور ویکسین آنے کے بعد یہ ایک طرح سے عام نوعیت کا فلُو وائرس بن کر رہ جائے گا۔
لاک ڈاؤن میں نرمی سے اس مرض کے پھیلاؤ پر اثرات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہرئے انہوں نے کہا کہ اگر لاک ڈاؤن کو محفوظ اور ذمہ دارانہ انداز میں مرحلہ وار ختم کیا جائے، جیسا امریکہ میں ہو رہا ہے تو پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
- By محمد ثاقب
پاکستان میں 1900 سے زیادہ ہیلتھ ورکز کروناوائرس کی لپیٹ میں
پاکستان میں کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے ساتھ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے اس وبا سے متاثر ہونے کا سلسلہ تشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک ملک بھر میں 1945 ہیلتھ ورکرز اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں۔
مئی کے شروع میں ملک بھر میں متاثر ہونے والے ہیلتھ ورکرز کی تعداد 444 تھی، جو ایک ماہ میں 4 گنا سے بھی زیادہ چکی ہے، جن میں سے 21 موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق اب تک 1068 ڈاکٹر ملک بھر میں کرونا سے متاثر ہو چکے ہیں جب کہ متاثرہ نرسوں کی تعداد بھی 302 ہو گئی ہے۔ اسی طرح دیگر طبی عملے کے مجموعی طور پر 575 افراد اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔
دوسرے نمبر پر کرونا وائرس سے صوبہ سندھ میں 411 ڈاکٹر متاثر ہوئے ہیں، جب کہ 42 نرسیں اور 85 دیگر ہیلتھ ورکرز بھی اس بھی اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبر پختونخواہ ہے، جہاں 249 ڈاکٹر، 97 نرسیں اور 206 دیگر طبی عملے کے ساتھ کل تعداد 552 تک پہنچ گئی ہے۔
پنجاب میں 108 ڈاکٹروں سمیت 341 ہیلتھ ورکرز، جب کہ بلوچستان میں 173 ڈاکٹروں کے ساتھ یہ تعداد مجموعی طور پر237 ہو گئی ہے۔
اب تک صحت کے شعبے سے منسلک 8 اموات صوبہ سندھ، جب کہ خیبر پختونخواہ میں 4، بلوچستان، گلگت بلتستان اور پنجاب میں 2،2 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 1 ہلاکت سامنے آئی ہے۔
"حالات وہیں جا رہے ہیں جس کی نشاندہی کرتے آ رہے تھے": پی ایم اے
ہیلتھ ورکرز کی کرونا سے متاثر ہونے کی شرح اور اموات میں اضافے پر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے حالات اسی جانب گامزن ہیں جس کی نشاندہی ڈاکٹر اور صحت کے دیگر ماہرین دو ماہ سے کرتے آ رہے تھے، لیکن اسے سنجیدہ نہیں لیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہیلتھ کیئر ورکرز پر بوجھ پڑنے سے ہمارا نظام صحت، جو پہلے ہی تباہ حالی کا شکار ہے، متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ آنے والے چند دنوں میں کرونا کیسز کی رفتار میں مزید اضافہ ہو جائے گا، کیونکہ عید کی چھٹیوں اور اس سے قبل بازاروں میں جس قدر جم غفیر دیکھا گیا اور عوام نے جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، اس کے اثرات آنے والے مزید چند روز میں سامنے آئیں گے۔
ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ جب تک اس بارے میں عوام میں شعور اجاگر نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک صورت حال مزید خراب ہوتی جائے گی۔
"حالات فی الحال قابو میں ہیں" معاون خصوصی ظفر مرزا:
پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس سے ملک بھر میں 78 اموات ہوئی ہیں، جن میں 4 ہیلتھ ورکرز بھی شامل ہیں۔ وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے 36 فیصد مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ جب کہ ملک بھر میں اب تک 5 لاکھ 32 ہزار ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں، جن میں مثبت ٹیسٹ کا تناسب 12 اعشاریہ 4 فیصد ہے۔
تاہم ان کے خیال میں ملک میں مجموعی طور پر 1395 اموات اور مقامی منتقلی کی شرح 92 فیصد رہنے کے باوجود بھی حالات کنٹرول میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں وینٹی لیٹرز اور بیڈز کی فی الحال کمی نہیں ہے۔
- By مدثرہ منظر
سندھ میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ
اطلاعات کے مطابق، پاکستان میں گذشتہ چند روز کے دوران کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں ایک دم اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ زیادہ تر سندھ میں دیکھنے میں آیا ہے۔
اس کی وجہ لاک ڈاؤن میں حالیہ نرمی ہو سکتی ہے، مگر پاکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ اگر یہ اضافہ جاری رہا تو لاک ڈاؤن دوبارہ لاگو کیا جا سکتا ہے۔
سندھ میں وزیرِ اطلاعات، بلدیات، ہاؤسنگ اینڈ پلاننگ، ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے کرونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آتے ہی وفاقی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ملک میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ مگر، بقول ان کے، اس سے اتفاق نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے جب بھی لاک ڈاؤن کی بات کی اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اور اب پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، انہوں نے بتایا کہ سندھ میں اس وائرس کی ابتدا کے دنوں میں صرف اسی لوگوں کو ٹیسٹ کرنے کی سہولت تھی جسے بڑھا کر اب 6700 سے زیادہ کر دیا گیا ہے۔