- By سدرہ ڈار
پاکستان میں کرونا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ، کیا سخت لاک ڈاؤن ہی واحد حل ہے؟
کراچی میں سخت گرمی کے باوجود آغا خان اسپتال کی پارکنگ میں لوگ چھ فٹ کے فاصلے سے قطار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ قطار کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرانے والوں کی ہوتی ہے جن کے لیے پارکنگ میں ہی عارضی لیبارٹری بنائی گئی ہے۔
آغا خان اسپتال کی کار پارکنگ میں ایک شامیانے کے نیچے فاصلے سے کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ یہاں کرونا وائرس ٹیسٹ کرانے کے لیے آنے والوں کو طویل انتظار کے بعد 7900 روپے کے عوض ٹیسٹنگ کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔
پھر کرونا کے مشتبہ مریض کی ساری تفصیلات، شناختی کارڈ نمبر اور رابطہ نمبر معلوم کر کے اسے ایک شیشے کے بوتھ کے سامنے بھیجا جاتا ہے۔ بوتھ میں ایک شخص موجود ہوتا ہے جو ایک باریک سی تار ناک میں داخل کر کے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیتا ہے۔
پھر وہ تار ایک ڈبے میں بند کر کے کہا جاتا ہے کہ آپ کا ٹیسٹ ہو چکا ہے۔ لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں جتنا دیکھنے میں لگتا ہے۔ جو شخص اس ٹیسٹ سے گزرتا ہے، وہی اس کی تکلیف اور بعد کی اذیت بیان کر سکتا ہے۔
نجی اسپتالوں میں یہ ٹیسٹ مہنگا ہے۔ لیکن ٹیسٹ کرانے والوں کا رش بتا رہا ہے کہ کرونا کے پھیلاؤ کا معاملہ اب سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر کرونا ٹیسٹنگ کے لیے قائم ہیلپ لائن 1166 پر موصول ہونے والی ہزاروں کالز اور روزانہ ہزاروں ٹیسٹوں کے نتائج بھی یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ آنے والا وقت کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 29 فیصد، 4 کروڑ 40 لاکھ افراد بیروزگار
امریکہ میں گزشتہ ہفتے مزید 15 لاکھ افراد نے محکمہ محنت کو آگاہ کیا کہ وہ بیروزگار ہوگئے ہیں اور انھیں مدد کی ضرورت ہے۔
اس طرح کرونا وائرس کی وجہ سے بارہ ہفتوں میں ذریعہ آمدن سے محروم ہوجانے والے امریکیوں کی تعداد 4 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جو امریکی ورک فورس کا 29 فیصد ہے۔
اگرچہ نئے بیروزگار افراد کی تعداد ہر ہفتے کم ہو رہی ہے اور گزشتہ ہفتے کا ہندسہ سب سے چھوٹا ہے، لیکن پھر بھی وبا سے پہلے گزشتہ سال کے دوران کسی بھی ہفتے میں بیروزگار ہوجانے والوں سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔
وبا کی وجہ سے وفاق کے زیر انتظام پروگرام میں ملازمت پیشہ افراد کے علاوہ سیلف ایمپلائیڈ لوگ بھی درخواست دے سکتے ہیں۔ ان کی تعداد گزشتہ ہفتے 6 لاکھ 20 ہزار سے بڑھ کر 7 لاکھ 5 ہزار ہوئی ہے۔ اس تعداد میں اضافے سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشی بحران سے ہر طرح کے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔
جو لوگ حکومت سے بینیفیٹس حاصل کررہے ہیں ان کی تعداد 2 کروڑ 13 لاکھ سے کچھ کم ہوکر 2 کروڑ 9 لاکھ ہوئی ہے۔ ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اس کا سبب کاروبار کا دوبارہ کھلنا ہے۔
لاک ڈاؤن ختم ہونے سے جن سیکٹرز میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں ان میں ریسٹورنٹس، خوردہ فروشی اور خدمات کے شعبے شامل ہیں۔ لیکن، یہ خدشات برقرار ہیں کہ معاشی زوال کی ایک اور لہر آسکتی ہے۔
بدھ کو مرکزی بینک کے سربراہ جیروم پاول نے خبردار کیا تھا کہ لاکھوں لوگ دوبارہ روزگار حاصل نہیں کرپائیں گے یا انھیں ملازمت حاصل کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔
امریکہ: ستمبر میں کرونا وائرس سے اموات دو لاکھ ہوجائیں گی، ماہرین
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں امریکہ میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ امریکہ میں اس وقت کرونا سے متاثرین کی مجموعی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے اور 11 جون تک اموات ایک لاکھ 15 ہزار سے بڑھ گئی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں حالیہ اضافہ لاک ڈاؤن کی نرمی کے بعد ہوا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے گلوبل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ اشیش جا نے بدھ کے روز نیوزچینل، سی این این کو بتایا کہ اگر امریکہ میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات نہ کیے گئے تو اموات میں اضافہ جاری رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں چاہے کرونا وائرس کے نئے کیسز سامنے نہ آئیں اور چاہے صورت حال جوں کی توں رکھی جائے تو بھی قرین قیاس یہی ہے کہ ستمبر کے مہینے میں کسی وقت اموات کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عالمی وبا ستمبر تک ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
اس وقت دنیا بھر میں کرونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض اور اموات امریکہ میں ہیں۔ اشیش جا نے کہا کہ اس کی وجہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر کنٹرول کیے بغیر لاک ڈاؤن کھولنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بہتر یہ ہوتا کہ لاک ڈاؤن اس وقت کھولا جاتا جب پازیٹو ٹیسٹنگ کی سطح 5 فی صد سے کم ہوتی۔
خبر رساں ادارے، رائٹرز کے مطابق اتوار کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران نیو میکسیکو، یوٹا اور ایری زونا میں عالمی وبا کے کیسز میں 40 فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ فلوریڈا اور ارکنسا میں بھی اس وبا کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
اضافے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤ ن کھلنے کے بعد لوگ کام کاج اور روزگار کے لیے گھروں سے باہر نکل رہے ہیں، اور بعض صورتوں میں حفاظتی تدابیر نظر انداز کی جا رہی ہیں، جس کی ایک مثال جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے ہیں۔
صحت کے حکام نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے مظاہروں میں شرکت کی ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنا کرونا ٹیسٹ کروا لیں۔ لیکن، نائب صدر مائیک پینس اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔
صحت کے حکام نے فاکس بزنس نیوز نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مظاہروں میں شرکت کرنے والے زیادہ تر لوگوں نے ماسک پہنے ہوئے تھے اور وہ سماجی فاصلے کا خیال رکھ رہے تھے۔
افریقہ میں کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، عالمی ادارہ صحت
صحت کے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ براعظم افریقہ میں وبائی مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس نے اب بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹی آبادیوں کو بھی اپنی لیپٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔
پیر کے روز تک دنیا بھر میں کروناوائرس کے متاثرین کی تعداد 75 لاکھ سے زیادہ اور اموات 4 لاکھ 21 ہزار ہو چکی تھیں۔ وبا کا زور یورپ میں کم ہوا ہے جب کہ جنوبی امریکہ اور جنوبی ایشیا کرونا وائرس کے نئے مراکز کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ براعظم افریقہ میں بھی وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آ رہی ہے۔ وہاں پائی جانے والی غربت اور صحت کی سہولتوں کی کمیابی کے باعث وبا کے بے قابو ہونے اور بڑے پیمانے پر اموات کے خدشات ہیں۔
جمعرات کے روز تک براعظم افریقہ میں پازیٹو کیسز کی تعداد دو لاکھ سے بڑھ گئی تھی اور اموات پانچ ہزار ہو گئیں تھیں۔ عالمی ادارہ صحت کی افریقہ کے لیے ریجنل ڈائریکٹر متشیدیسو موتی نے کہا ہے کہ کرونا کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچنے میں 98 دن لگے جب کہ مزید ایک لاکھ کا اضافہ صرف 19 دنوں میں ہو گیا۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ عالمی تعداد کے تناسب میں وبا میں مبتلا افراد کی تعداد تین فی صد سے کم ہے، لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ یہاں اس کے پھیلنے کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ افریقہ کے 54 ملکوں میں سے 10 کے اندر نمبروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ براعظم افریقہ میں مریضوں کی کل تعداد کا 75 فی صد صرف ان دس ملکوں میں ہے، جب کہ کل اموات میں سے 71 فی صد کا تعلق صرف پانچ ملکوں سے ہے۔