'لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے تاجروں کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نظر نہیں آتا'
ایک جانب جہاں وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اپنی حکومت کے پیش کردہ بجٹ کے متوازن ہونے پر دلائل دیے ہیں تو وہیں متعدد معاشی ماہرین اور تاجر اسے اعداد و شمار کا روایتی گورکھ دھندا قرار دے رہے ہیں۔
معاشی تجزیہ کار اور کالم نگار ڈاکٹر فرخ سلیم نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ حکومت موجودہ مالی سال میں تو بجٹ وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی لیکن آئندہ مالی سال کے لیے 4900 ارب یعنی موجودہ حاصل شدہ بجٹ سے بھی 25فی صد زیادہ رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے کیوں کہ اس وقت کرونا کی وجہ سے ملک کی معاشی ترقی کا پہیہ تقریباََ رکا ہوا ہے۔
معاشی تجزیہ کار اور وزیرِ اعظم کی معاشی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ بجٹ کے مثبت نکات میں سے سب اہم بات یہ ہے کہ سماجی تحفظ کے لیے حکومت نے بہرحال 230 ارب روپے کی بڑی رقم مختص کی ہے جو کہ خوش آئند ہے جب کہ صحت کی مد میں کرونا وائرس کے پیش نظر 70 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔
نامور صنعت کار اور تاجر رہنما سراج قاسم تیلی کا کہنا ہے کہ تاجر بالخصوص چھوٹے تاجر جو کرونا وائرس کے سبب کیے جانے والے لاک ڈاؤن سے شدید متاثر ہوئے ہیں ان کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نظر نہیں آتا۔
ان کے بقول لگتا ہے کہ کرونا وائرس یوں ہی موجود رہا تو حکومت کو تمام اہداف پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی کیوں کہ موجودہ حالات میں یہ اہداف پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔
صدر اسمال ٹریڈرز ایسوسی ایشن محمود حامد کے مطابق کرونا کی وجہ سے تباہ حال کاٹیج انڈسٹری کو بجٹ میں مکمل نظر انداز کر کے حکومت نے تاجر دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔
کرونا کے باعث آرٹ کی نمائش کے ڈھنگ بھی تبدیل
نوجوان مصوروں کے فن پاروں کی 16ویں سالانہ نمائش 'ریزیلینس' کے عنوان سے الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں پہلی مرتبہ آن لائن منعقد ہوئی۔ پاکستان کے فنونِ لطیفہ سے جڑے تقریباََ تمام نوجوان مصوروں کے فن پارے 'ینگ آرٹسٹ ایگزییشن' میں نمائش کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں کیسز 12 لاکھ تک جانے کا خدشہ
وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ حفاظتی تدابیر پر عمل نہ کیا گیا تو جولائی کے آخر تک پاکستان میں کیسز کی تعداد 10 سے 12 لاکھ تک ہو سکتی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ پاکستان میں وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا تھا۔ اب جون میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب کیسز ہو چکے ہیں اگر کیسز بڑھنے کی موجودہ صورت حال برقرار رہی تو اس تعداد میں دو گنا کا اضافہ ہو جائے گا اور ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جون کے آخر تک یہ تعداد تین لاکھ تک ہو سکتی ہے جب کہ جولائی کے آخر تک یہ تعداد 10 سے 12 لاکھ ہو جائے گی۔
ان کے بقول یہ پریشانی کی بات ہے لیکن اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اگر انفرادی طور پر ہر شخص ماسک کا استعمال لازمی کر لے۔ تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ وبا کے پھیلاؤ میں کمی کا بہترین طریقہ ہے۔ اگر ہر شخص ماسک پہنے تو اس کے پھیلاؤ میں 50 فی صد کم آ جائے گی۔
اسد عمر کے مطابق دوسری چیز سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ حکومت اس حوالے سے کاروبار کے لیے ہدایت نامہ بھی جاری کر چکی ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے ہدایت نامہ جاری کیا تھا تاہم اب انتظامی کارروائی بھی کی جا رہی ہے تاکہ حفاظتی اقدامات کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں جاری رہ سکیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 43 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 647 ہو گئی، جب کہ عالمی وبا سے مرنے والوں کی تعداد 13 تک پہنچ گئی ہے۔
سامنے والے نئے کیسز میں سے 30 کا تعلق صدر مقام مظفرآباد سے ہے۔
پاکستانی کنٹرول کے کشمیر میں اب تک 11016فراد کے ٹیسٹ لیے گئے جن میں سے10963 کے رزلٹ آ چکے ہیں۔ اب تک 254 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں، جب کہ 380 مریض زیر علاج ہیں اور 13 مریضوں کی اموات ہوئی ہیں جن میں سے 7 کا تعلق مظفرآباد سے ہے۔