رسائی کے لنکس

رافیل جنگی طیارے کی خریداری کے تنازع پر بھارت میں سیاسی طوفان


بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی

رافیل جنگی طیارے کی خرید سے پیدا شدہ تنازعے نے جہاں بھارت میں سیاسی طوفان کھڑا کر دیا ہے وہیں فرانس میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔

فرانس کے نائب وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کے بیان سے تنازعے نے جو شکل اختیار کی ہے اس کے بعد ان کو ڈر ہے کہ فرانس اور بھارت کے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اولاند نے ایک فرانسیسی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سودے کے وقت بھارت نے صنعتکار انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کا نام پیش کیا تھا اور فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ اویشن کے سامنے کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔

اس انکشاف کے بعد کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے، جو کہ ایک عرصے سے اس سودے میں بڑے گھپلے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی پر اپنا حملہ تیز کر دیا ہے۔

ان کا الزام ہے کہ چونکہ مودی نے خود یہ معاہدہ کیا تھا اس لیے اس میں بڑے پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی میں وہ شریک ہیں۔ دیگر اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے بھی وزیر اعظم مودی سے وضاحت طلب کی جا رہی ہے۔

لیکن مودی خاموش ہیں اور حکومت کی جانب سے وزیر دفاع نرملا سیتارمن، وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور دیگر متعدد وزرا اس الزام کی سختی سے تردید کر رہے ہیں۔

راہول گاندھی نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے اس سودے کی جانچ کرائی جائے۔

ادھر ڈسالٹ اویشن نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ اس نے بھارت کی سرکاری اسلحہ ساز کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمٹیڈ (ایچ اے ایل) کے بجائے ریلائنس ڈیفنس سے معاہدہ کیا ہے۔

ارون جیٹلی نے اپوزیشن کے مطالبات اور الزامات کو مسترد کر دیا اور جوابی الزام عائد کیا کہ راہول گاندھی اور فرانسوا اولاند میں ساز باز ہے۔

ایک سینئر تجزیہ کار پروفیسر منوج جھا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن نے حکومت کے سامنے کچھ سوالات رکھے ہیں۔ اسے چاہیے کہ وہ اپوزیشن رہنماؤں کا مضحکہ اڑانے کے بجائے ثبوتوں کے ساتھ ان سوالوں کے جواب دے۔

بقول ان کے سودے کی آنچ وزیر اعظم اور ان کے دفتر پر آ رہی ہے ۔ اس لیے وزیر اعظم کو ہی جواب دینا چاہیے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ایک نیوز کانفرنس کریں اور سوالوں کے جواب دیں۔ بقول ان کے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ معاملہ 2019 کے انتخابات تک اس حکومت کا پیچھا کرتا رہے گا اور ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی کرے۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق رافیل تنازعہ اس حکومت کے لیے اسی طرح نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے جیسا کہ بوفرز تنازعہ راجیو گاندھی حکومت کے لیے ثابت ہوا تھا۔

یاد رہے کہ سابقہ یو پی اے حکومت نے 2012 میں رافیل جنگی طیارے کا سودا کیا تھا جس کے مطابق ایک طیارے کی قیمت 526 کروڑ روپے تھی اور 18 جہاز تیار حالت میں ملتے اور 108 جہاز بھارت کے اندر بنائے جاتے۔ فرانسیسی کمپنی بھارت کو اس کا لائسنس دیتی اور تکنالوجی بھی منتقل کرتی۔

لیکن 10 اپریل 2015 کو وزیر اعظم مودی نے فرانس کے دورے کے وقت اس معاہدے کو رد کر دیا اور ایک نیا معاہدہ کیا جس کے تحت بھارت کو 36 طیارے ملیں گے اور ایک طیارے کی قیمت 1666 کروڑ روپے ہوگی۔

ان پر الزام ہے کہ انھوں نے دیوالیہ ہو چکے انیل امبانی کی مدد کرنے کے لیے یہ معاہدہ کیا۔ ذہن نشین رہے کہ انیل امبانی کی کمپنی معاہدے سے محض پندرہ روز قبل قائم ہوئی تھی اور اسے اسلحہ سازی کا کوئی تجربہ نہیں ہے جبکہ ایچ اے ایل کو پچاس برسوں کا تجربہ حاصل ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG