خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے متصل نیم قبائلی علاقے درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کی صنعت ایک صدی سے قائم ہے۔ لیکن صوبے کے حالات اور سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث اسلحہ سازی کی یہ صنعت خطرے سے دوچار ہے۔
تصاویر: کیا درے کے اسلحے کا دور گزر گیا؟

5
فروخت کے لئے موجود کلاشنکوف :یہاں اسلحہ سازی کی صنعت کی ابتدا اُنیسوی صدی کے اواخر میں اُس وقت ہوئی جب برطانوی فوج میں شامل میرونامی ایک سپاہی بغاوت کرکے اس قبائلی پٹی میں رہائش پذیر ہوا۔ میرو اپنے ساتھ برطانوی ساخت کی بندوق بھی لے کر آیا تھا۔

6
اسلحہ سازی میں مصروف ایک بزرگ کاریگر : ایک کاریگر جنت گل نے بتایا ’ طالبان کے آنے سے قبل حالات بہت اچھے تھے مگر بعد میں طالبان کی اس علاقے میں آمد و رفت سے یہ صنعت مکمل طور پر مفلوج ہوگئی۔

7
اسلحہ سازی میں مصروف ایک اور کاریگر: موجودہ حالات میں کاریگر پشاور اور دیگر علاقوں میں جابسے ہیں کاریگروں کا کہنا ہے کہ حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔

8
اسلحہ تیاری کا ایک منظر۔ کاریگر اپنے کام میں مصروف ہیں ۔ ایک کاریگر کا کہنا ہے کہ ابھی معاملہ گھما گھوں والا ہے ۔ اسلحہ سازی پر پابندی لگتی ہے نہیں لگتی، فاٹا سے انضمام کے مکمل ہونے کے بعد پتہ چلے گا۔