رسائی کے لنکس

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی : تحریک انصاف کو وضاحت کی ضرورت کیوں؟


ڈیپ فیک
ڈیپ فیک

عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف سوشل میڈیا پر ڈیپ فیک کی ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کر کے متنبہ کر رہے ہیں کہ جلد ہی عمران خان کی کردارکشی کے لیے ایسی ویڈیوز لیک کی جا سکتی ہیں جن میں، بقول ان کے، عمران خان تو موجود نہ ہوں گے، لیکن ان کی شکل کو استعمال کیا جا سکے گا۔

ایسی ویڈیوز کو ڈیپ فیک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی بھی ویڈیو میں ایسے شخص کو دکھایا جا سکتا ہے جو موقع پر موجود نہ ہو۔

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کیا ہے؟

ڈیپ فیک یا ڈیپ لرننگ ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت کے ذریعے کسی بھی ویڈیو میں پہلے سے موجود کسی فرد کی شکل، کسی اور پر چسپاں کی جاتی ہے اور ان کی ہی آواز بھی اس میں نقل کی جاتی ہے۔ اس کے لیے یوٹیوب کلپس اور گوگل امیجز کی مدد لی جاتی ہے۔

جعلی ویڈیوز منظر عام پر آنے سے متعلق قیاس آرائیوں کا پرچار تحریکِ انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ اور تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں ڈیپ فیک کا چرچا

سابق وزیرِ اعظم عمران خان بھی حالیہ عرصے میں کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ جعلی ویڈیوز کے ذریعے ان کی کردار کشی کی کوشش ہو گی۔

تین مئی کو تحریکِ انصاف نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان میں مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ 'ڈیپ فیک' ٹیکنالوجی کے ذریعے کئی اہم سیاسی شخصیات کی جعلی ویڈیوز بنوا کر کردار کشی کی منصوبہ بندی کر چکی ہیں۔

مریم نواز نے تحریکِ انصاف کے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ "مجھے علم نہیں کہ یہ ڈرامہ آپ کیوں کر رہے ہیں، میں نہ کردار کشی پر یقین رکھتی ہوں نہ ذاتی انتقام پر۔انسان کی ذاتی ونجی زندگی اس کا اوراس کے خدا کا معاملہ ہے۔

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کتنی کارآمد ہے؟

صحافتی ادارے وٹنس کے پروگرام ڈائریکٹر اور نیویارک سے تعلق رکھنے والے صحافی سیم گریگوری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ بہترین معیار کی ڈیپ فیک ویڈیو بنانا ابھی بہت مشکل ہے اور کوئی عام شخص ایسی وڈیو آسانی سے نہیں بنا سکتا جس میں ماضی کے کسی مشہور واقعے کی بننے والی ویڈیو میں کسی کا ڈیپ فیک بنایا جاسکے۔

لیکن ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی بہتر ہوتی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیپ فیک کے ذریعے ابھی تک زیادہ تر خواتین ہیں جن کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان میں عوامی طور پر معروف مرد بھی شامل ہیں جنہیں ان کی مرضی کے بغیر ویڈیو میں جنسی تعلق میں دکھایا جاتا ہے۔

’لائیرز ڈویڈنڈ‘ یعنی جھوٹے کو آسانی

انہوں نے بتایا کہ جہاں اس سے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں ان ویڈیوز کی تردید کرنا بھی آسان ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں سیاستدانوں نے خود سے منسوب ویڈیوز کو جعلی قرار دیا۔ انہوں نے ملائیشیا اور برازیل کی مثالیں دیتے ہوئے بتایا جہاں سیاسی شخصیات نے جنسی سرگرمیوں سے متعلق ویڈیوز کو جعلی اور ڈیپ فیک سے بنی قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیپ فیک کی وجہ سے مستقبل میں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ اصلی ویڈیو کو بھی جعلی قرار د دیں گے۔

کیا ڈیپ فیک کو پکڑنا آسان ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ڈیپ فیک کو ڈیٹیکٹ کرنے والی ٹیکنالوجی ابھی نوزائدہ ہے اور عام صحافی اور شہری بھی ان کے لیے یہ آسان نہیں ہے کہ وہ معلوم کر سکیں کہ کوئی ویڈیو درست ہے یا نہیں خصوصاً جب ویڈیو کی کوالٹی بھی بہت اچھی نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ آمرانہ حکومتیں کسی ویڈیو ثبوت کو ڈیپ فیک قرار دے کر صحافیوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔

کیا عمران خان سے منسوب ممکنہ ویڈیوز ان کے لیے سیاسی نقصان کا باعث ہوسکتی ہیں؟

کمیونی کیشن کی ماہر اور نجی ادارے وومن ایڈوانسمنٹ ہب کی شریک بانی عائشہ سروری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر بدنام کرنے اور کردارکشی جیسے ہتھکنڈے عورتوں کے خلاف ہی کام آتے ہیں۔ یہ مردوں کے خلاف کام نہیں آتے ہیں۔

انہوں نے عمران خان سے منسوب ویڈیوز کے موجود ہونے اور ممکنہ طور پر لیک ہونے کی افواہوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی ایسے الزامات لگتے رہے ہیں جن میں ریحام خان کی کتاب بھی شامل ہے لیکن ان کے حامیوں نے انہیں سب معاف کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ ان کے نزدیک عمران خان کا مرد ہونا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ عمران خان کی جگہ اگر بے نظیر ہوتیں تو کیا ایسا ہی ردعمل سامنے آتا؟

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ جنسی طور پر بٹا ہوا ہے۔ یہاں ’سیکشوئلٹی‘ پر تجربہ کرنے کے بہت کم مواقع ہیں۔ لوگوں کی چھوٹی عمر میں شادی ہوجاتی ہے۔ عمران خان، بقول ان کے، گھٹے ہوئے مردانہ معاشرے میں آزادی کا ایک احساس فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جہاں مرد اس بات کی گنتی کرتے ہیں کہ وہ کتنی خواتین کے ساتھ رہے ہیں وہاں تحریک انصاف کو اتنی محنت کی ضرورت نہیں تھی۔ بقول ان کے، ابھی ہم مرد کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG