رسائی کے لنکس

فالج کے مریضوں کو بولنے میں مدد دینے والا آلہ ایجاد


یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں نیورو سرجن ڈاکٹر ایڈورڈ چانگ اپنی لیب میں کام کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں نیورو سرجن ڈاکٹر ایڈورڈ چانگ اپنی لیب میں کام کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

فالج کا حملہ یا دماغی چوٹ انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ جان بچ بھی جائے تو اکثر صورتوں میں چلنے پھرنے اور بعض واقعات میں مریض جسم کو حرکت دینے، کروٹ بدلنے اور حتیٰ کہ بولنے تک سے معذور ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے یہ جاننا بہت دشوار ہوتا ہے کہ مریض کیا سوچ رہا ہے اور کیا کہنا چاہتا ہے۔

اب سائنس دانوں اور طبی ماہرین نے اس مشکل کا ایک حل ڈھونڈ نکالا ہے اور وہ ایک ایسا آلہ ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو دماغ میں اٹھنے والی لہریں پڑھ کر انہیں کمپیوٹر کی سکرین پر اس انداز میں پیش کر دیتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ بولنے سے معذور فالج زدہ شخص کیا کہنا چاہتا ہے۔

اگرچہ اس سلسلے میں ابھی بہت سا کام کیا جانا باقی ہے جس پر برسوں لگ سکتے ہیں، لیکن اس حالیہ کامیابی نے دماغی چوٹ یا کسی بیماری کے سبب بولنے سے معذور شخص کا مافی الضمیر جاننے کا راستہ کھول دیا ہے۔

سان فرانسسکو کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے نیورو سرجن ڈاکٹر ایڈورڈ چانگ کہتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کو کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ ہم کتنی آسانی سے بات چیت کے ذریعے اپنا مقصد دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں؛ جب کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت خوشی کا مقام ہے کہ ہم ان لوگوں سے بات چیت کی جانب ایک قدم آگے بڑھانے میں کام یاب ہو گئے ہیں جو کسی وجہ سے بول نہیں سکتے۔

اس وقت تک جو لوگ بیماری، فالج یا دماغی چوٹ کے باعث بول یا لکھ نہیں سکتے، ان کے لیے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے ذرائع بہت ہی محدود ہیں۔

یوینورسٹی آف کیلی فورنیا کے انجنیئر ڈیوڈ موسز، رضاکار کے دماغ میں برقی تاریں نصب کر رہے ہیں۔
یوینورسٹی آف کیلی فورنیا کے انجنیئر ڈیوڈ موسز، رضاکار کے دماغ میں برقی تاریں نصب کر رہے ہیں۔

اس وقت ایسے افراد سے بول چال کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، وہ دشوار بھی ہیں اور ان سے حاصل ہونے والی معلومات نہ صرف بہت کم ہوتی ہیں بلکہ اس میں وقت بھی زیادہ صرف ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر جو مریض اپنے سر کو حرکت دینے کے قابل ہوتے ہیں، انہیں ایک ایسی ٹوپی پہنا دی جاتی ہے جس پر ایک پنسل نما چیز لگی ہوتی ہے۔ اس کے سامنے ایک سکرین رکھی جاتی ہے جس پر حرف لکھے ہوتے ہیں۔ وہ سر کو جنبش دے کر حروف کی جانب اشارہ کرتا ہے جس سے دیکھ بھال کرنے والوں کو پتا چل جاتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔

ایسے مریض جو اپنا سر ہلانے کے بھی قابل نہیں ہوتے، ان کے لیے ایک دوسری قسم کا آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی ایک سکرین ہوتی ہے جو آنکھ کی پتلیوں کی حرکت کو نوٹ کرتی ہے۔ مریض جس حرف پر اپنی نظر جماتا ہے، آلہ اسے نوٹ کر لیتا ہے۔

سائنس دان بول چال اور حرکت کرنے سے معذور افراد کی مشکلات حل کرنے کے لیے بہت عرصے سے کام کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے ربوٹک بازو بنائے اور مریضوں کو لگائے بھی جا رہے ہیں جو دماغ کی لہروں پر کام کرتے ہیں۔ جیسے فالج زدہ مریض جب یہ سوچتا ہے کہ مجھے یہ کپ اٹھانا ہے تو روبوٹک بازو حرکت میں آتا ہے اور کپ اٹھا لیتا ہے۔

لیکن ڈاکٹر چانگ کی ٹیم نے ایک بالکل مختلف آلہ تیار کیا ہے۔ اس کا کام مریض کے دماغ میں ابھرنے والے لفظوں کو سکرین پر عبارت کی شکل میں پیش کرنا ہے جسے پڑھ کر دوسرے لوگ اس سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی لیبارٹری میں نیورو سرجں ڈاکٹر ایڈورڈ چانگ اور انجنیئر ڈیوڈ موسز کام کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی لیبارٹری میں نیورو سرجں ڈاکٹر ایڈورڈ چانگ اور انجنیئر ڈیوڈ موسز کام کر رہے ہیں۔

ڈاکٹرچانگ کا آلہ بولنے کے بنیادی اصول پر کام کرتا ہے۔ جب ہم کوئی لفظ بولنا چاہتے ہیں تو ہمارے دماغ کا وہ حصہ جس کا تعلق بولنے سے ہے، ہماری زبان، جبڑوں، ہونٹوں اور گلے کے اندر آواز پیدا کرنے والے اعصاب کو حرکت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ہر لفظ کے لیے منہ کے یہ حصے اور اعصاب مختلف انداز میں حرکت کرتے ہیں جس سے مختلف آواز پیدا ہوتی ہے اور مختلف لفظ بنتے ہیں۔ ڈاکٹر چانگ کا آلہ دماغ کے اس حکم کی لہروں کو ریکارڈ کر کے لفظوں کی شکل میں سکرین پر پیش کر دیتا ہے۔

اس آلے کا پہلا تجربہ جس رضاکار پر کیا گیا، اس کی عمر 30 سال کے لگ بھگ تھی اور وہ 15 سال سے فالج کی وجہ سے حرکت کرنے اور بولنے سے معذور تھا۔ سائنس دانوں کی ٹیم نے اس کے دماغ کے اس حصے کی سطح پر تاریں نصب کر دیں جس کا تعلق بول چال سے ہے۔

پھر اسے ایسے 50 لفظ دماغ میں دوہرانے کے لیے کہا گیا جو ہماری روزمرہ بول چال میں استعمال ہوتے ہیں اور جن کی مدد سے ایک ہزار سے زیادہ ایسے جملے بن جاتے ہیں جو ہم عمومی طور پر بولتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر پانی، اچھا، چائے وغیرہ۔

جب رضاکار نے ان لفظوں کو دوہرایا تو آلے نے دماغ کی لہروں کے انداز کو اس لفظ کے ساتھ اپنی یاداشت میں محفوظ کر لیا۔ یاداشت کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد جب بھی رضاکار نے ان میں سے کوئی بھی لفظ سوچا ، آلے نے اپنی سکرین پر پیش کر دیا۔

ڈاکٹر چانگ کے پراجیکٹ کے ایک رکن اور انجنیئر ڈیوڈ موسز نے بتایا کہ فی الحال رضاکار کے سوچنے اور اس لفظ کو سکرین پر نمودار ہونے میں تین سے چار سیکنڈ لگتے ہیں، جو بظاہر زیادہ وقت ہے، لیکن جیسے جیسے ہم اپنے آلے کی یاداشت اور اس کی صلاحیت کو بہتر بنائیں گے، یہ وقت بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا۔

ڈاکٹر چانگ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ فی الحال ان کا ایجاد کردہ آلہ مریض کی سوچ کو لفظوں کی شکل میں سکرین پر پیش کرتا ہے، لیکن وہ دن دور نہیں جب وہ لکھنے کی بجائے بول کر بتایا کرے گا۔

XS
SM
MD
LG