رسائی کے لنکس

کیا آپ بچوں کو کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں؟


جیمی ابائیڈ کہتے ہیں کہ ان عوامل کا مطالعہ کرتے ہوئے جو جوانی میں والدین کے ساتھ جارحیت کے لیے خطرہ بڑھا سکتے ہیں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ والدین کے نفسیاتی کنٹرول کا نوجوانوں کے ردعمل اور جارحیت کے رویہ کے ساتھ تعلق ہے۔

والدین اکثر اپنے بچوں کے مستقبل کےخواب کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر جیتے ہیں اور اسی کوشش میں کبھی کبھی وہ بچوں کے ساتھ زیادتی بھی کر جاتے ہیں۔

کئی سائنسی مطالعوں میں ظاہر ہوا ہے کہ بچوں پر زیادہ روک ٹوک کرنے سے ناصرف بچوں کی نفسیاتی صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بلکہ، والدین کے ساتھ بچوں کے مستقبل کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

لیکن اب 'جنرل یوتھ اینڈ اڈولیسینس' کے جنوری کے شمارے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں ایک نیا مسئلہ ابھر کر سامنے آیا۔

امریکی یونیورسٹی ورماؤنٹ میں سائیکو لوجیکل سائنس کے شعبے سے وابستہ محققین کیٹلین آر ویگنر اور جیمی ابائیڈ کہتے ہیں کہ ان عوامل کا مطالعہ کرتے ہوئے جو جوانی میں والدین کے ساتھ جارحیت کے لیے خطرہ بڑھا سکتے ہیں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ والدین کے نفسیاتی کنٹرول کا نوجوانوں کے ردعمل اور جارحیت کے رویہ کے ساتھ تعلق ہے۔

مطالعے کے نتائج سے پتا چلا کہ ایسے والدین جو بچوں کو اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کے لیے ان پر جذباتی دباؤ مسلط کرتے ہیں، وہ انھیں نفسیاتی دباؤ کا شکار بنا دیتے ہیں، اور انھیں ایک ایسا نوجوان بنا دیتے ہیں، جس کا رویہ کالج میں دوستوں کے ساتھ جارحانہ ہوتا ہے۔

مطالعے کے لیے محقق جیمی ابائیڈ اور ان کے ساتھی تحقیق کاروں نے 180 کالج کے طالب علموں کو بھرتی کیا۔ جن میں سے اکثریت لڑکیوں کی تھی۔

محققین نے ایک مشاہدے کے دوران شرکاء کے پسینہ کی سطح ریکارڈ کی اور اس دوران ان سے سوالات پوچھے گئے مثلاً ایک سوال میں پوچھا گیا کہ وہ ایسے تکلیف دہ واقعات کو دہرائیں جس میں انھیں کسی اپنے سے چوٹ پہنچی ہو۔

ہر تجربے کی بنیاد پر شرکاء کے غصے کی پیمائش جلد پر مزاحمت کی سطح (ایس سی ایل آر ) ٹیسٹ کے ذریعے کی گئی۔

جن طلبہ کا پسینہ زیادہ تھا ان کا ایس سی ایل آر زیادہ تھا جس سے ان کا غصے سے بھپرے ہونا ظاہر ہوا۔ یہ شرکاء زیادہ پریشان تھے۔

محققین نے ایسے شرکاء کے جوابات کو زیادہ جارحانہ تصور کیا گیا تھا، جبکہ ان میں فکر کے بغیر ردعمل کرنے کا امکان تھا مثلاً وہ کوئی کسی برے پیغام کو بلا سوچے سمجھے لمحہ بھر میں دوستوں کو سینڈ کر سکتے تھے۔

دوسری طرف کم پسینے والے طالب علم، جن کا ایس سی ایل آر کم تھا، وہ پرسکون تھے اور جلد بازی میں فیصلہ کرنے کے بجائے سوچتے تھے۔

ایک علیحدہ سوالنامے سے بچوں پر والدین کے کنٹرول کی سطح کا انکشاف ہوا زیادہ والدین کا بچوں پر کنٹرول زیادہ غصے کو اور کم کنٹرول نے کم غصے کو ظاہر کیا۔

سائیکولوجی سائنس کے شعبہ سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر جیمی ابائیڈ نے کہا کہ بنیادی طور پر ہم چاہتے تھے کہ بچے اس مشکل وقت کو ایک بار پھر سے محسوس کریں تاکہ ان کا جسم ہمارے لیے غصے کے ردعمل کو ظاہر کرے۔

انھوں نے کہا کہ اگر آپ پرسکون ہیں تو آپ حکمت عملی اور منصوبے کے ساتھ اپنے غصے کو ظاہر کریں گے اور اس طرح کے غصے کو آپ اپنے تعلقات کنٹرول کرنے میں اور دوستوں کے درمیان غالب رہنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

محقق جیمی ابائیڈ کے مطابق کالج کے بچے اکثر اپنی ضروریات کے لیے والدین پر انحصار کرتے ہیں اور بشکریہ ٹیکسٹ پیغام یا ای میل یا سوشل میڈیا کا جس پر والدین کی مرضی کے مطابق نتیجہ نا لانے پر آپ کو والدین کی طرف سے سزا کے طور پر پاکٹ منی یا ان کی چاہت سے محروم کیا جا سکتا ہے یا پھر والدین اس حکمت عملی کو اپنے مطلب کا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

بقول محقق جیمی ابائیڈ ان دنوں دور بیٹھ کر بھی بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا سکتا ہے اب بچوں پر جذباتی دباؤ ڈالنے کے لیے والدین کا قریب ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ والدین کا بچوں پر بہت زیادہ اثر ورسوخ ہے۔

مطالعے سے ایسے ثبوت ملے جن سے ظاہر ہوا کہ دباؤ میں رکھنے والے والدین اور ان کے بچوں کے درمیان تعلقات میں غصہ بھرا تھا۔

اس قسم کے تعلقات نے ایک ایسے رشتے کو جنم دیا تھا جس میں ایک کا عمل دوسرے کے جذبات اور سماجی رتبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

تحقیق کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اچھے والدین کی تربیت بچوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور دوستوں کے درمیان جارحانہ رویہ اپنانے سے روکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG