رسائی کے لنکس

سری نگر: پولیس کارروائی میں درجنوں طلبہ و طالبات زخمی


پیر کو پیش آنے والے پُرتشدد واقعات کے بعد، عہدیداروں نے موبائیل انٹرنیٹ سروسز ایک مرتبہ پھر معطل کردی ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کو کل منگل کو بند رکھنے اور تمام امتحانات ملتوی کرنے کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے

پیر کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں متعدد مقامات پر احتجاج کرنے والے طالب علموں پر حفاظتی دستوں کی جانب سے مبینہ طور پر بانس کے ڈنڈے چلائے جانے، ٹیئر اور پیپر گیس کے استعمال اور سرخ مرچ سے بھرے پاوا شیل داغے جانے کے نتیجے میں درجنوں زخمی ہوئے۔

بتایا جاتا ہے کہ سرینگر کے گورنمنٹ زنانہ کالج کی کئی طالبات اُس وقت بے ہوش ہوگئیں جب حفاظتی دستوں نے ایک مظاہرے کے دوراں اُن کا تعاقب کرتے ہوئے، پیپر گیس چھوڑی۔ طلبہ اور طالبات نے دارالحکومت سرینگر کے ساتھ ساتھ وادئ کشمیر کے دوسرے شہروں اور قصبہ جات میں کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کے بعد تعلیمی اداروں کے باہر آکر مظاہرے کئے۔

وہ سنیچر کے روز جنوبی شہر پلوامہ میں ایک مقامی کالج کے طلبہ اور طالبات مظاہرین پر حفاظتی دستوں کے طرف سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں 50 سے زائد ساتھیوں کے زخمی ہونے پر احتجاج کر رہے تھے۔ احتجاج کرنے کی اپیل طالب علموں کی ایک تنظیم نے کی تھی۔ پیر کو پیش آنے والے پُرتشدد واقعات کے بعد عہدیداروں نے موبائیل انٹرنیٹ سروسز ایک مرتبہ پھر معطل کردی ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کو کل منگل کو بند رکھنے اور تمام امتحانات ملتوی کرنے کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔

گورنمنٹ ڈگری کالج پلوامہ کے طالب علموں نے الزام لگایا تھا کہ کیمپس کے مرکزی دروازے کے باہر تعینات حفاظتی دستے انہیں ہراسان کر رہے تھے اور جب وہ اس کے خلاف اور پولیس ناکہ ہٹائے جانے کے مطالبے کے حق میں مظاہرہ کرنے لگے تو حفاظتی دستوں نے اُن پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا اور کئی طلبہ اور طالبات اُس وقت زخمی ہوگئے، جس پر حفاظتی دستوں نے کالج کیمپس میں زبردستی گھس کر ان کی مار پیٹ کی۔

سرینگر میں پولیس کے ترجمان نے بتایا تھا کہ پولیس نے کالج کیمپس سے تقریبا" 200 میٹر دور ناکہ بٹھایا تھا اور جب کلاس ورک ختم ہوگیا، ترجمان کے اپنے الفاظ میں، ’’چند شرپسندوں نے ناکہ پارٹی پر پتھر پھینکنا شروع کئےاور صورتِ حال پر قابو پانے کے لئے حفاظتی کمک علاقے میں روانہ کردی گئی جس نے محدود پیمانے پر طاقت استعمال کی‘‘۔

اس واقعے کے بعد، ایک سے زائد ایسے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے تھے جن میں مسلح حفاظتی دستوں کو طلبہ کو بے دردی کے ساتھ پیٹتے اور بعض کو بندوق کی نوک پر پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں اور آزادی پسند سیاسی قیادت کے خلاف نعرے لگواتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان ویڈیوز کے منظرِ عام آنے کے بعد لوگوں، با الخصوص اسٹوڈنٹ برادری میں پہلے سے موجود غم و غصے میں اضافہ ہوگیا۔ تاہم، پولیس نے کہا تھا کہ جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالی گئیں وہ پلوامہ کی نہیں تھیں۔

پولیس نے پیر کو بتایا کہ اس نے 9 اپریل کو بھارتی پارلیمان کے ایک ضمنی انتخاب کے دوران لی گئی اُس ویڈیو کے سلسلے میں مقامی تھانے میں کیس رجسٹر کرلیا ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی اور جس میں ایک کشمیری نوجوان کو جس کی بعد میں شناخت فاروق احمد ڈار کے طور پر ہوئی تھی فوج کی طرف سے جیپ کے ساتھ باندھے جانے کے بعد گاؤں گاؤن گھماتے اور پتھراؤ کرنے والوں سے بچنے کے لئے ڈھال بناتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

دریں اثنا، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کئی قائدین اور سرگرم کارکنوں کی نظر بندی ختم کر دی گئی ہے۔ انہیں بھارتی پارلیمان کے لئے اس ماہ کے شروع میں کرائے گئے ضمنی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی پولیس پکڑ کر لے گئی تھی یا پھر انہیں ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG