بھارت میں ایک قانونی مسودہ تیار کیا جا رہا ہے جس کے تحت نقشے میں بھارت کی سرحدوں کی غلط نشاندہی کرنے والے کو سات سال تک قید اور 100 کروڑ روپے تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
شہریوں اور متعلقہ فریقین کے پاس 30 روز تک کا وقت ہے کہ اگر وہ اس مجوزہ مسودے کے لیے اپنی آرا یا سفارشات پیش کرنا چاہیں۔
"جیوسپیچیل انفارمیشن ریگولیشن بل 2016ء " میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص بھارت کے علاقوں بشمول بین الاقوامی سرحدوں کی کسی بھی طرح غلط نشاندہی اور انھیں کسی بھی ذریعے سے نشر یا جاری نہیں کر سکتا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ایسے بعض امور میں خاص طور پر مغرب کو تنقید کا نشانہ بناتی آرہی ہے جس میں بسا اوقات متنازع علاقے جموں و کشمیر کو پاکستان اور اروناچل پردیش کا چین کا حصہ دکھایا گیا۔
گزشتہ سال اپریل میں الجزیرہ نیٹ ورک کی بھارت میں نشریات پانچ روز تک بند کر دی گئی تھیں جس کی وجہ اس نیٹ ورک کی طرف سے ایک نقشے میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا جانا تھا۔
نئی دہلی کا اصرار ہے کہ اس پورے خطے کو بھارت کے حصے کے طور پر پیش کیا جائے۔
نقشوں میں اسی طرح کی "غلطیوں" پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور وکی پیڈیا کو بھی بھارت تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے۔
مجوزہ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کے جغرافیے سے متعلق سیٹیلائیٹ یا کسی بھی ذرائع سے تصاویر حاصل کرنے سے قبل حکومت سے اجازت لینا ہوگی۔
اس تناظر میں گوگل میپس اور گوگل ارتھ کو بھی بھارت میں کام کے لیے اجازت نامہ درکار ہوگا۔
جموں و کشمیر کا خطہ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت سے ہی پاکستان اور بھارت کے مابین متنازع ہے۔ دونوں ملک اس کو اپنا حصہ قرار دیتے ہیں۔