رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں منشیات کے استعمال میں اضافہ


منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے خلاف سرینگر میں طالبات مظاہرہ کر رہی ہیں (فائل فوٹو)
منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے خلاف سرینگر میں طالبات مظاہرہ کر رہی ہیں (فائل فوٹو)

ڈاکٹروں اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف غیر قانونی منشیات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فارما سیوٹیکل ادویات کو بھی اب نشے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے نوجوانوں میں منشیات کا استعمال تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور نفسیاتی معالج کہتے ہیں کہ ان کے پاس روزانہ ایسے سیکڑوں نوجوانوں کو لایا جارہا ہے جو افیون، چرس، ہیروئین، کوکین، بھنگ، براؤن شوگر، گوند، رنگ پتلا کرنے والے محلول اور کئی دوسرے معلوم اور نامعلوم نشہ آور مرکبات کے استعمال کے نتیجے میں جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی امراض کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔

سرکردہ ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عبد الوحید خان اسے ایک انتہائی سنگین مسئلہ سمجھتے ہیں۔

ان کے بقول، "کشمیر کے نوجوانوں میں نشہ آور ادویات کے استعمال اور اس کے نتیجے میں ان میں پیدا ہونے والے امراض کا معاملہ بڑی حد تک فکر و تشویش کا باعث ہے۔ اصل میں یہاں لوگ نامساعد حالات کی وجہ سے عمومی طور پر دماغی سکون اور قلبی اطمینان کے حوالے سے آرام دہ محسوس نہیں کررہے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال نشہ آور اشیا اور مرکبات کی طرف رغبت دلانے کا موجب بن جاتی ہے۔"

ڈاکٹروں اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف غیر قانونی منشیات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فارما سیوٹیکل ادویات کو بھی اب نشے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ عمل اتنا ہی نقصان دہ ثابت ہورہا ہے جتنا غیر قانونی منشیات کا استعمال۔

صوفیاء اور اولیاء کی سرزمین کشمیر چند برس قبل تک اس رجحان سے بڑی حد تک نا آشنا تھی اور یہاں تمباکو، سگریٹ اور محدود پیمانے پر شراب کے علاوہ کوئی بھی نشہ آور شے استعمال نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن اب صورتِ حال تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔

سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میر واعظ عمر فاروق نے وائس آف امریکہ کو بتایا، "یہ ایک انتہائی تشویش ناک صورتِ حال ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہاں کے جو سیاسی حالات ہیں، ظلم ہے، ماردھاڑ ہے، قتل و غارت گری ہے اس کا منفی اثر نوجوانوں کی نفسیات پر پڑ رہا ہے اور ان میں سے کئی ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے ان نشہ آور انواع کا استعمال کرنے لگے ہیں۔"

تاہم میر واعظ عمر کو اس بات پر حیرانی ہے کہ ایسی نشہ آور اشیا کا حصول کشمیری نوجوانوں کے لیے کیسے آسان بن گیا ہے جو حالیہ برسوں تک کشمیر میں با لکل متعارف نہیں تھیں۔

انہوں نے کہا، "ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ یہ چیزیں کیسے کُھلے عام بیچی اور خریدی جارہی ہیں۔ حکومت اور پولیس کی سطح پر اس وبا کو روکنے کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے تھا، نہیں ہورہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ سماج کے ذمہ دار افراد کی حیثیت سے ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ نئی نسل کو اس تباہی سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔"

حکام کہتے ہیں کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے منشیات مخالف مہم میں سرگرم ہیں۔ تاہم انہیں اعتراف ہے کہ ریاست منشیات کی خرید و فروخت کی پسندیدہ جگہ بن چکی ہے۔

پولیس سے حاصل کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق اس سال چھاپوں کے دوران ہیروئین، گانجا، چرس وغیرہ کی تقریباً 13 سو کلو گرام مقدار ضبط کی گئی۔ اس کے علاوہ نشہ دلانے والی ادویات کی دو لاکھ ساٹھ ہزار سے بھی زائد بوتلیں اور گولیاں برآمد کی گئیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں 888 مقدمے درج کرکے 1213 افراد کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔

پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ 1990ء کے بعد ریاست ہیروئن اور اس سے وابستہ اشیا کی اسمگلنگ کا بین الاقوامی ٹرانزٹ پوائنٹ بن رہی ہے اور ان کے بقول ہیروئین اور براؤن شوگر کی ایک بڑی مقدار افغانستان سے پاکستان اور پھر اس کے زیرِِ انتظام کشمیر کے راستے سے ہوکر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر پہنچ رہی ہے۔ اس کا ایک حصہ مقامی سطح پر استعمال ہورہا ہے لیکن زیادہ مقدار ممبئی، دلی اور بھارت کے دوسرے شہروں اور علاقوں میں اسمگل کی جاتی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل آف پولیس شیش پال وید نے اسے 'نارکوٹک ٹیرر ازم' یا نشہ آور دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اس کے خلاف کمر بستہ ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ ملیٹنسی کے خلاف جنگ لڑنے سے بھی ایک بڑا چیلنج ہے لیکن ہم نے سماج کو اس لعنت سے چھٹکارا دلانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔"

کشمیر پولیس نشے کے متاثرین کے علاج کے لیے سرینگر اور جموں میں دو بڑے اور اننت ناگ، بارہ مولہ، کھٹوعہ اور ادھمپور میں نسبتاً چھوٹے ڈرگ ڈی-ایڈکشن مراکز چلارہی ہے۔

پولیس سربراہ کے مطابق یہ کافی نہیں ہے بلکہ مختلف سرکاری محکموں بالخصوص ہیلتھ اور سوشل ویلفیئر، وکلا، ججوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کو منشیات کی لت کے خلاف جہاد کا اعلان کرکے اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG