رسائی کے لنکس

بھارت میں ’دسہرہ‘ تہوار جوش وخروش سے کیوں منایا جاتا ہے؟


بھارت میں ہندو مذہب کا ایک تہوار دسہرہ ان دنوں جوش و خروش کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ دس روز تک چلنے والا یہ تہوار پانچ اکتوبر کو اختتام پذیر ہوگا۔ تہوار کے آخری روز پورے ملک میں جشن منایا جاتا ہے اور بدی پر نیکی کی فتح کو یاد کیا جاتا ہے۔

ہندو مذہب کی کتابوں میں روایت ہے کہ لنکا کے راجا راون نے رام کی اہلیہ سیتا کے حسن پر فریفتہ ہوکر انہیں اغوا کرلیا تھا۔ رام نے سیتا کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر راون نے انکار کردیا۔بعد ازاں رام کو مجبوراً راون کے خلاف جنگ کرنا پڑی جو دس روز تک جاری رہی۔دسویں روز رام نے راون کا قتل کردیا۔ اس تہوار کو وجے دشمی یعنی دس روز میں ہونے والی فتح بھی کہا جاتا ہے۔

ہندو مذہب کی کتابوں میں درج روایتوں کے مطابق راون کے دس سر تھے اور انہیں امر ہونے کا آشیرباد ملا ہوا تھا۔ لیکن رام کے ہاتھوں ان کی ہلاکت ہوئی اور اس واقعے کو برائی پر اچھائی کی جیت کہا جاتا ہے۔

اس تہوار کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں مسلسل نو راتوں تک رام لیلا منائی جاتی ہے جس میں اس جنگ کو ڈرامے کی شکل میں دہرایا جاتا ہے۔ آخری روز رام اور راون کی علامتی افواج آمنے سامنے ہوتی ہیں اور کئی گھنٹے کی علامتی جنگ کے بعد راون رام کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔

اس موقع پر راون اور ان کے بھائی کمبھ کرن کے طویل ترین پتلے بنائے جاتے ہیں جن میں پٹاخے نصب ہوتے ہیں۔ جب علامتی جنگ ختم ہو جاتی ہے تو سورج غروب ہونے کے وقت ان پتلوں کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ نذر آتش کیے جانے کے منظر کو بڑی تعداد میں لوگ دیکھتے ہیں۔

اس تہوار کو 'نوراتری' یعنی 'نو راتیں' بھی کہا جاتا ہے۔ ان دنوں میں بہت سے ہندو برت یعنی روزہ رکھتے ہیں۔اس دوران وہ صرف پھل کھاتے اور پانی پیتے ہیں، اناج نہیں کھاتے۔ پھر دسویں روز وہ اپنا برت توڑتے ہیں۔ یہ تہوار ہندو مذہب کے ایک دوسرے تہورا دیوالی کا پیش خیمہ ہے۔ اس کے 20 روز بعد دیوالی آتی ہے۔

دسہرہ کو ملک کے مختلف علاقوں میں الگ الگ انداز میں منایا جاتا ہے۔ ہندو مذہب میں درگا اور کالی دیوی کو طاقت کی علامت مانا گیا ہے۔ لہٰٰذا بعض علاقوں میں دس روز تک درگا کی پوجا کی جاتی ہے۔ دسویں روز ان کی مورتی کو پانی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔

درگا پوجا کا تہوار عام طور پر مشرقی بھارت، بالخصوص مغربی بنگال میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر درگا کی جو مورتی بنائی جاتی ہے، ان کے ہاتھ میں بھالا ہوتا ہے جو ان کے قدموں میں پڑے ہوئے ایک راکشس یعنی شیطان جس کا نام مہیسا سر ہے ، کے سینے میں پیوست ہوتا ہے۔ اس طرح اس میں بھی بدی پر نیکی کی فتح کو دکھایا جاتا ہے۔

رواں برس کولکتہ میں درگا پوجا کے موقع پر اس وقت ایک تنازع ہوا جب لوگوں نے دیکھا کہ ایک پنڈال میں درگا کی مورتی کے پاس جو راکشس بنایا گیا ہے ، اس کی شکل گاندھی سے ملتی ہے۔ اس کی آنکھوں پر چشمہ ہے، ایک ہاتھ میں گاندھی کی طرح لاٹھی ہے اور سر پر بال نہیں ہیں۔

اس پنڈال کا انتظام آل انڈیا ہندو مہا سبھا نے کیا ہے جو گاندھی کے نظریات کی مخالف اور ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے نظریات کی حامی ہے۔

آل انڈیا ہندو مہا سبھا مغربی بنگال کے کارگزار صدر چندر چوڑ گوسوامی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پتلابظاہر گاندھی کی طرح لگتا ہے لیکن وہ گاندھی نہیں ہے۔ وہاں نہ تو گاندھی کا نام لکھا ہے اور نہ ہی کوئی دوسری چیز ہے۔

البتہ معروف مصنف ڈاکٹر انل دتہ مشرا کے مطابق گاندھی کو برائی کی علامت کے طور پر پیش کرنا ہندومہاسبھا کا پرانا نظریہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ آج ملک کا ماحول اس قدر خراب ہو گیا ہے کہ گاندھی میں بھی برائی نظر آنے لگی ہے۔

ان کے مطابق آج دسہرہ اور درگا پوجا کا تہوار منایا تو جا رہا ہے لیکن اس تہوار کی روح ختم ہو گئی ہے۔ یہ تہوار بدی پر نیکی کی فتح کے طور پر منایا جاتا رہا ہے لیکن آج برائی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تہوار کو اس کی حقیقی روح کے مطابق منایا جائے۔

ادھر کولکتہ کی پولیس نے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔گوسوامی کا کہنا ہے کہ وزارتِ داخلہ نے ان سے کہا ہے کہ ''شیطان اور گاندھی میں مماثلت برداشت نہیں کی جائے گی۔''

دوسری جانب ترنمول کانگریس اور کانگریس سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے گاندھی کو مبینہ طور پر اس طرح پیش کرنے پر آل انڈیا ہندمہاسبھا کےاقدام کی مذمت کی ہے۔ترنمول کانگریس کے جنرل سیکریٹری کنال گھوش نے ایک بیان میں کہا کہ یہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اصل چہرہ ہے۔ پوری دنیا میں گاندھی کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی ایسی توہین قابل قبول نہیں ہے۔

ان کے اس بیان پر فوری طور پر بی جے پی نے کوئی ردعمل نہیں دیا ہے، تاہم انہوں نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق بی جے پی مغربی بنگال کی صدر سوکنتا مجومدار نے کہاہے کہ شیطان کی جگہ پر گاندھی کو رکھنا بالکل غلط ہے۔

بھارت میں اس تہوار کے موقع پر گجرات، مہاراشٹرا اور بعض دیگر ریاستوں میں ’گربا ڈانس‘ کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ رات میں ہونے والے اس رقص میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے ہاتھوں میں ایک، ڈیڑھ فٹ کی دو رنگین ڈنڈیاں لے کر جوڑے کی شکل میں رقص کرتے ہیں۔

اس رقص میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ برس سے اس میں مسلمانوں کی شرکت پر تنازع پیدا ہونے لگا ہے۔

ہندو شدت پسند تنظیموں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے رضاکاروں کی ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر گربا ڈانس میں شرکت کی اجازت دیتے ہیں۔

ادھر گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان اور مہاراشٹر اکے کئی مقامات پر ان پروگراموں میں شرکت کرنے پر مسلمان نوجوانوں کو زد و کوب کیے جانے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔

گربا ڈانس میں مسلمانوں کی شرکت کی مخالفت کرنے والوں کا الزام ہے کہ وہ ہندو خواتین سے تعلقات قائم کرکے ان سے شادی کرتے ہیں اور پھر ان کا مذہب تبدیل کرا دیتے ہیں۔وہ اسے لو جہاد کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہندو خواتین کے تحفظ کا معاملہ ہے اس لیے ان پروگراموں میں دیگر مذاہب کے لوگوں کی شرکت ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔

ڈاکٹر انل دتہ کہتے ہیں کہ یہ تہوار عوام میں بھائی چارے کے قیام کے لیے منائے جاتے ہیں۔ لیکن ان کو بھی مذہبی شدت پسندی سے جوڑ دیا گیا ہے اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی شرکت پر اعتراض کیا جانے لگا ہے جبکہ یہی بھارت کی مشترکہ تہذیب ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG