رسائی کے لنکس

مصر میں اخوان المسلمون بھی ہدف تنقید


قوم پرست، سیکولرسٹ، لبرل عناصر اور پرانے سیاستداں سب اکٹھے ہو گئے ہیں، اور قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں، اور ملک میں دوسرے مقامات پر احتجاج کر رہے ہیں ۔

مصر کے صدر محمد مرسی نے اپنے اختیارات میں اضافہ کر لیا ہے اور ان کے اس اقدام کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ لیکن یہ احتجاج صرف ان کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں ان کی پارٹی، اخوان المسلمون کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے ۔

بدھ کے روز سینکڑوں مصریوں نے صدر مرسی کے خلاف مظاہرے جاری رکھے ۔ مصر کی دو اعلیٰ ترین عدالتوں نے کہا کہ وہ صدر کے گذشتہ ہفتے کے اس فرمان کے خلاف احتجاج کے طور پر کام بند کر دیں گی جس کے تحت انھوں نے خود کو عدالتوں کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔

تصادم اور ہنگاموں کے اس زمانے میں، جو نعرے سننے میں آ رہے ہیں وہ صرف مسٹر مرسی کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ ان میں اخوان المسلمون کے روحانی لیڈر سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ راستے سے ہٹ جائیں۔

ایک ایسی تنظیم کے لیے جو کئی عشروں سے اپنے فلاحی کاموں اور مذہبی سرگرمیوں کے ذریعے مصریوں کے دل جیتنے کی کوشش کرتی رہی ہے، حالات کا یہ رخ اختیار کرنا حیرت ناک ہے۔

اخوان نے طویل عرصے تک جو اچھے کام کیے تھے، ان کا صلہ انہیں جون میں مل گیا جب ان کے صدارتی امیدوار، محمد مرسی نے بہت سے لبرل اور سیکولر ووٹروں پر ثابت کر دیا کہ وہ انقلاب کے بعد کے مصر کی قیادت کے لیے موزوں ترین امید وار ہیں۔

مصطفیٰ العباد الشرق سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں’’اگر مسٹر مرسی نے دانشمندی سے کام نہ لیا اور اپنا اعلان واپس نہ لیا، تو میرے خیال میں نہ صرف ان کا آئینی اعلان خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ مسٹر مرسی اور اخوان المسلمون کی قانونی حیثیت کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔‘‘

مسٹر مرسی نے انتخاب جیتنے کے بعد، اخوان المسلمون اور اس کے سیاسی شعبے، فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی سے اپنا تعلق ختم کر لیا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ سب مصریوں کے صدر کی حیثیت سے کام کریں گے۔

قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر سعید صادق کہتے ہیں کہ عبوری ملٹری کونسل سے اختیارات لینے کے بعد، صدر نے جو ابتدائی اقدامات کیے وہ امید افزا تھے۔

’’شروع کے دومہینوں میں ڈاکٹر مرسی نے سب مصریوں کو خوش رکھا، ان کو بھی جنھوں نے ان کی مخالفت کی تھی اور انہیں ووٹ نہیں دیا تھا ۔ انھوں نے فوجی جنرلوں کو چلتا کر دیا اور بعض ایسے علامتی اقدامات کیے جن سے خارجہ پالیسی میں ان کی آزادی کا اظہار ہوتا تھا۔‘‘

لیکن صدر اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کر سکے کہ وہ ایسی انتظامیہ پیش کریں گے جو متنوع ہو گی۔ تمام اہم عہدوں میں ، قومی اور مقامی دونوں سطحوں پر، اخوان المسلمون کے ارکان کی بھر مار تھی۔ اب گزشتہ ہفتے جو صدارتی فرمان جاری ہوا ہے، اس کے نتیجے میں، اس قسم کے اقدامات پر نگرانی ختم ہو گئی ہے کیوں کہ عدلیہ کو کم از کم عارضی طور پر بے اثر کر دیا گیا ہے۔ تجزیہ کار العباد کہتے ہیں۔

’’مصر میں اب بہت سے لوگوں کو ڈر ہے کہ اخوان المسلمون پورے ملک پر اپنا تسلط قائم کر رہی ہے ۔ اخوان اور اس کے سربراہ کو کسی نے منتخب نہیں کیا ہے ۔ صدارت میں، ملک کے دوسرے اداروں میں، پولیس، انٹیلی جنس، فوج میں وہ کیا کر رہے ہیں؟ میرے خیال میں یہ انتہائی اہم لمحہ ہے۔‘‘

یہی وہ لمحہ ہے جب سیکولر فورسز متحد ہو گئی ہیں۔ قوم پرست، سیکولرسٹ، لبرل عناصر اور پرانے سیاستداں سب اکٹھے ہو گئے ہیں، اور قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں، اور ملک میں دوسرے مقامات پر احتجاج کر رہے ہیں ۔

مخالفین کہتے ہیں کہ تازہ ترین اقدام سیاسی اثر و رسوخ کا مظاہرہ ہے ۔ غزہ میں جنگ بندی کرانے میں کامیابی، اور مغربی ملکوں سے قرضے ملنے کے ابتدائی وعدوں کے زیرِ اثر، اعتدال کا دامن چھوڑ کر یہ متنازع اقدام کیا گیا ہے۔

مسٹر مرسی نے کہا ہے کہ انھوں نے اپنے اختیارات میں اضافہ محض اس لیے کیا ہے تا کہ ملک کے لیے نیا آئین تیار ہو سکے اور نئی پارلیمینٹ کے لیے انتخابات ہو جائیں۔ تا ہم سیاسی تجزیہ کاروں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ آنے والے دنوں میں مصری معاشرے میں اختلافات میں اضافہ ہوگا کیوں کہ مصالحت کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔
XS
SM
MD
LG