رسائی کے لنکس

'خدارا کسی مخلوط حکومت کی بات نہ کریں'


نواز شریف نے لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈالا۔فوٹو اے پی
نواز شریف نے لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈالا۔فوٹو اے پی

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ ان کی پارٹی قومی انتخابات میں مطلوبہ اکثریت حاصل کر لے گی۔

یہ انتخابات تشدد اور تنازعے سے متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر ملک گیر سطح پر موبائل فون کی بندش اور انتہائی مقبول رہنما عمران خان کی قید کے باعث۔

شریف نے ان خیالات کو مسترد کر دیا کہ پاکستان مسلم لیگ پارٹی پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور اسے حکومت بنانے کے لیے ایک اتحاد کی تشکیل کی ضرورت ہو گی۔ لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے مہنگے علاقے کے مضافات میں ووٹ ڈالنے کے بعد انہوں نے کہا، "خدارا کسی مخلوط حکومت کی بات نہ کریں۔"

اس وقت پولنگ ختم ہونے میں کئی گھنٹے تھے، تاہم انہوں نے پھر بھی کہا کہ "وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے چھوٹے بھائی اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف سمیت، ان کے خاندان کے ارکان کو کون کون سے عہدے دیے جائیں گے ۔"

نواز شریف نے کہا کہ،" انتخابات ختم ہونے کے بعد ہم بیٹھیں گے اور فیصلہ کریں گے کہ کون وزیر اعظم ہو گا، اور کون صوبے پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہو گا۔" پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کو وزیر اعظم بننے کے لیے ایک اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف انتخابی مہم کےآخری دن اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کر رہے ہیں ان کے سات ان کے چھوٹے بھائی سابق وزیر اعظم شہباز شریف ہیں ، فوٹو اے ایف پی ۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف انتخابی مہم کےآخری دن اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کر رہے ہیں ان کے سات ان کے چھوٹے بھائی سابق وزیر اعظم شہباز شریف ہیں ، فوٹو اے ایف پی ۔

تاہم اے پی کا کہنا ہے کہ گہرے سیاسی اختلافات کی وجہ سے زیادہ امکان یہی ہے کہ کوئی مخلوط حکومت ہی تشکیل پائے گی نہ کہ وہ حکومت جس کی نواز شریف بات کر رہے ہیں۔

اگر کوئی ایک سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کرتی، تو پہلے نمبر پر آنے والی جماعت کو ایک اتحادی حکومت کی تشکیل کا موقع ملتا ہے ۔پھر بھی اب جب شریف مقابلے کے سب سے اہم امیدوار دکھائی دے رہے ہیں, تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے شریف کے حالات نمایاں طور پر پلٹتے دکھائی دیتے ہیں ,جو قید کی سزا سے بچنے کے لیے چار سال تک بیرون ملک خود ساختہ جلاوطنی کے بعد گزشتہ اکتوبر ملک واپس آئے تھے۔

اپنی واپسی کے چند ہفتے بعد ان کی سزائیں منسوخ ہو گئیں اور وہ ایک چوتھی ٹرم کے حصول کی کوشش کرنے کے لیے آزاد ہو گئے۔

ان کے حریف، سابق وزیر اعظم عمران خان سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ان پر سزاؤں کے ایک سلسلے کے بعد انتخابات لڑنے پر پابندی عائد تھی جن میں وہ سزائیں شامل تھیں جو انتخابات سے صرف چند روز قبل سنائی گئیں ۔

سابق وزیر اعظم عمران خان، فائل فوٹو
سابق وزیر اعظم عمران خان، فائل فوٹو

ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ یہ الزامات مقبول ترین کرکٹ اسٹار سے اسلام پسند سیاستدان بننے والے عمران خان کو نقصان پہنچانے کے لیے عائد کیے گئے ہیں جنہوں نے نے اقتدار کے اپنے ڈھلتے دنوں میں ملک کی فوج پر تنقید کرنا شروع کر دی تھی، جس نے ایک طویل عرصے تک سیاست میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد کہ ان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے امیدوار پارٹی کا نشان۔۔ کرکٹ کا بلا ، استعمال نہیں کر سکتے، وہ آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے پر مجبور ہو گئے ۔پاکستان میں، پارٹیاں ناخواندہ ووٹرز کو بیلٹ پر اپنے پسندیدہ امیدوار کو تلاش کرنے میں مدد کے لیے علامتوں کا استعمال کرتی ہیں۔

خان کو جیل میں صرف سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی دیکھنے کی اجازت ہے، اور انہیں روزانہ ایک اخبار ملتا ہے، انگریزی زبان کا روزنامہ ڈان۔ ان کی پارٹی نے کہا کہ خان نے انتخابات کے دن ٹی وی دیکھنے اور اخبار پڑھنے کا منصوبہ بنایا تھا اور ان کی وکلا کو جب ان سے ملنے کا موقع ملا تووہ انہیں بریف کریں گے۔

خان کی پارٹی کے ساتھ برتاؤ کو سیاسی تجزیہ کار عظیم چوہدری نے "پولنگ سے قبل دھاندلی" قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ "پورا انتخابی عمل ایک تاجپوشی جیسا لگتا ہے۔"

شریف کے سیاسی گڑھ میں پی ٹی آئی ووٹرز کی بڑی تعداد

لاہور میں جو شریف کا گڑھ ہےبہرحال عمران خان کی پارٹی کے لیے زبردست ٹرن آؤٹ تھا۔

گڑھی شاہو کے محلے میں، ایک ووٹر کشف زین نے بتایا کہ وہ صبح ساڑھے چھ بجے گھر سے نکلیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ خان کے امیدواروں میں سے ایک کو ووٹ دینے کے لیے وقت پر پہنچ سکیں۔

"میرے بچے مجھے بتا رہے تھے کہ یہاں جلدی پہنچنا کتنا ضروری ہے۔ بچے اس الیکشن کو لے کر ایسی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ وہ سب پی ٹی آئی کو ووٹ دے رہے ہیں۔''

ان کی 19 سالہ بیٹی الہام نے انسٹاگرام پر پارٹی کی پالیسیوں اور اعداد و شمار کا مطالعہ کیا، جس میں یہ بھی شامل تھا کہ کون سے امیدوار کون سے نشانات استعمال کر رہے ہیں۔

ان کے اپنے انتخابی حلقے تک میں بھی شریف کے حامیوں نے بظاہر کم جوش و خروش اور عزم کا اظہار کیا۔ ایک ووٹر نے کہا کہ انہیں خاندان کی وجہ سے ووٹ دینا پڑا کیوں کہ وہ اس کے پڑوسی ہیں اور وہ ان سے لگ بھگ روزانہ ملتے ہیں۔

فوٹو گرافر شاہ رخ بھٹی نےکہا، کہ وہ(نواز شریف ) معیشت کے لیے اچھے ہیں۔ وہ صنعت کے لیے اچھے ہیں ، وہ فارن ایکس چینج پر اچھا کنٹرول رکھتے ہیں۔ لیکن انہو ں نے، بے بسی کی علامت کے اظہار میں اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہیں اس ووٹنگ پر بہت مایوسی ہوئی ہے۔

کیا نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن سکیں گے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:52 0:00

شاہ رخ نے مزید کہا کہ اسے بیرونی طاقتیں کنٹرول کر رہی ہیں ۔ ان کا اشارہ ملک کی فوج کی طرف تھا جس نے پاکستا ن کی تاریخ کے نصف حصے میں ملک پر حکومت کی ہے اور خیال ہے کہ ابھی تک وہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اقتدار میں کون آئے گا۔

ایک اور واحد حقیقی مدمقابل پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ اس کی طاقت کا مرکز جنوب میں ہے اور اس کی قیادت قومی سیاست کے ایک ابھرتے ہوئے اسٹار بلاول بھٹو زرداری کرتے ہیں جو سابق مقتول وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے فرزند ہیں۔

شریف اور بھٹو زرداری روایتی حریف ہیں لیکن انہوں نے ماضی میں خان کے خلاف اتحاد کیا تھا۔ تجزیہ کار پیش گوئی کرتے ہیں کہ مقابلہ نواز شریف اور بھٹو زرداری کی پارٹیاں جیتیں گی جو امکانی طور پر اپنے طور پر وزارت عظمیٰ حاصل نہیں کر سکیں گی لیکن بلاول بھٹو زرداری نواز شریف کی زیر قیادت اتحاد کا حصہ ہو سکتے ہیں ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری ایک انتخابی مہم کے دوران مالاکنڈ میں اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کر رہے ہیں ، فوتو اے ایف پی 31 جنوری 2024
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری ایک انتخابی مہم کے دوران مالاکنڈ میں اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کر رہے ہیں ، فوتو اے ایف پی 31 جنوری 2024

انتخابات سے ایک روز قبل سیاسی دفاتر پر بم دھماکوں اور جمعرات کو ہونے والے ان درجنوں حملوں میں ،جن کا بظاہر مقصد ووٹنگ میں خلل اندازی تھا، کم از کم 30 لوگ ہلاک ہوئے۔ عسکریت پسندی سے متاثرہ اس ملک میں فوج نے کہا ہے کہ 51 حملوں میں 12 لوگ ہلاک اور 39 زخمی ہو چکے ہیں۔

انسانی حقوق کے ادارے ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے موبائل فون کی بندش کی مذمت کی ۔جنوبی ایشیا کے لیے ادارے کی عبوری ڈپٹی ڈائریکٹر لیویا سکارڈی نے کہا ،تبا ہ کن بم دھماکوں کے دوران پولنگ اسٹیشنوں پر جانے والے لوگوں کے لیے اطلاعات تک رسائی میں رکاوٹ اور انتخابات سے قبل حزب اختلاف کی سخت پکڑ دھکڑ غیرذمہ دارانہ اقدام ہیں ۔

تشدد ، سیاسی اختلافات اور بظاہر پیچیدہ معاشی بحران نے بہت سے ووٹروں کو مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے اور اس بارے میں سوال پیدا ہوئے ہیں کہ آیا ایک نئی حکومت متفکر مغربی اتحاد کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کر سکتی ہے ۔

اس رپورٹ کا مواد اےپی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG