رسائی کے لنکس

'پوٹن، مودی کے کہنے پر یوکرین جنگ ختم نہیں کریں گے'


ازبکستان کے شہر سمرقند میں 15 اور 16 ستمبر کو ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سمٹ کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ہونے والی ملاقات پر سب کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ قیاس آرائی بھی کی جا رہی تھی کہ شاید نریندر مودی چین کے صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات اور تبادلۂ خیال کریں۔ لیکن یہ ملاقات نہیں ہوئی۔ البتہ مودی نے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان، ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور ازبکستان کے صدر شوکت مرزئیوف سے ملاقاتیں کیں۔

پوٹن سے ملاقات کے موقع پر مودی نے یوکرین جنگ کے سلسلے میں بھار ت کے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ یہ جنگ کا زمانہ نہیں ہے۔ انہوں نے پوٹن کو یاد دلایا کہ اس سے قبل بھی ٹیلی فون پر وہ ان سے یہ بات کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے سفارت کاری، جمہوریت اور مذاکرات پر زور دیا۔

مودی نے جنگ کے نتیجے میں غذا اور توانائی کے بحران جیسے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے سپلائی چین کے متاثر ہونے کا حوالہ دیا اور کہا کہ آج موقع ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ امن کے راستے پر کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بھی جنگ سے پیدا شدہ عالمی چیلنجز کا ذکر کیا تھا۔

پوٹن نے مودی سے کہا کہ یوکرین جنگ کے سلسلے میں بھارت کی تشویش سے، جس کا ذکر آپ بار بار کرتے رہے ہیں آگاہ ہیں۔ قبل ازیں جب شی جن پنگ سے پوٹن کی ملاقات ہوئی تھی تو ان سے بھی انہوں نے کہا تھا کہ وہ بیجنگ کی تشویش سمجھتے ہیں۔


فروری میں روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد مودی اور پوٹن کی یہ پہلی روبرو اور ٹیلی وائزڈ ملاقات تھی۔ قبل ازیں دونوں رہنماؤں نے چھ ماہ کے دوران کم از کم چار بار ٹیلی فون پر گفتگو کی اور ہر بار مودی نے سفارت کاری اور مذاکرات کی مدد سے جنگ ختم کرنے پر زور دیا۔ قابلِ ذکر ہے کہ بھار ت نے اس معاملے میں روس کی مذمت کبھی نہیں کی۔ تاہم اس نے یوکرین کے شہر بوچا میں ’قتل عام‘ کی مذمت کی تھی۔

بعض تجزیہ کار مودی کے اس بیان کو کہ یہ جنگ کا زمانہ نہیں ہے، روس پر تنقید سے تعبیر کر رہے ہیں۔ امریکی اخبار ' نیویارک ٹائمز' کے مطابق جنگ کے سلسلے میں روسی معیشت کو سہارا دینے والے چین اور بھارت، روس سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں۔ اس سے روس کا یہ خیال کمزور پڑ گیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر الگ تھلگ نہیں ہو سکتا۔

بھارت کے سابق سفارت کار پناک رنجن چکرورتی کے مطابق نریندر مودی نے پوٹن سے وہی کہا جو بھارت کا مؤقف رہا ہے۔ مودی نے جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجز کا ذکر کیا۔ کیوں کہ یوکرین سے گندم اور کھاد کی سپلائی بند ہو گئی ہے۔ تیل اور گیس کے بھی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ جنگ نے سپلائی چین کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لہٰذا مودی نے وہی کہا جس کی توقع تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ پوٹن نے مودی سے یہ تو کہا کہ وہ بھارت کی تشویش سے آگاہ ہیں اور جنگ کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن انہوں نے جنگ جاری رہنے کے لیے یوکرین کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔

ان کے خیال میں ابھی جنگ بند ہونے والی نہیں ہے۔ پوٹن، مودی کے کہنے پر جنگ ختم نہیں کریں گے۔ کیوں کہ بقول ان کے امریکہ کی جانب سے اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی سپلائی کی وجہ سے بھی فی الحال جنگ بندی کا امکان نہیں ہے۔ ہاں اگر امریکہ ہتھیاروں کی سپلائی روک دے تو جنگ بند ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ امریکہ اور مغرب نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کی ہے اور جنگ چھیڑنے کی وجہ سے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔


میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ مہینوں میں پوٹن کو سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں سفارتی دھچکہ لگ رہا ہے اور جنگ میں روس کی پسپائی ہو رہی ہے۔ ادھر اندرون ملک جنگ شروع کرنے پر سوالات تیز ہو گئے ہیں۔ لہٰذا مغرب کا خیال ہے کہ اگر روس کو مزید شکست ہوتی ہے تو وہ یوکرین پر حملے اور تیز کر دے گا۔

ایس سی او اجلاس کے بعد جمعے کو پوٹن نے ایک نیوز کانفرنس میں یوکرین کے شہری بنیادی ڈھانچے پر حالیہ روسی کروز میزائل حملوں کو ایک انتباہ قرار دیا۔

تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ پوٹن کے تیور دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ابھی جنگ بند کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ اس جنگ کے توسط سے مغرب کو یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان پر حکم نہیں چلا سکتا۔ پشپ رنجن کے خیال میں کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شاید نریندر مودی پوٹن کو جنگ بند کرنے پر آمادہ کر لیں۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ روس سے بھارت کے تاریخی رشتے رہے ہیں، مودی اور پوٹن گہرے دوست ہیں اور بھارت روس سے سب سے زیادہ ہتھیار خریدتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے امریکہ سے بھی تعلقات بڑھتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بھارت کو ان دونوں ملکوں سے اپنے رشتوں کو متوازن رکھنے کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے غیر جانب دارانہ مؤقف اختیار کیا۔ تاہم اس نے کسی بھی عالمی فورم پر روس کی مذمت نہیں کی جس سے اس کو سفارتی تقویت حاصل ہوئی۔

لیکن وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس معاملے میں بھارت روس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق بھارت کی بھی مجبوریاں ہیں۔ وہ روس سے دور نہیں ہو سکتا۔ وہ روس سے دیگر ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایس ۔400 میزائل نظام بھی خرید رہا ہے جو کہ ا س کی دفاعی ضرورت ہے۔

مودی، شی ملاقات کیوں نہیں ہوئی؟

ادھر ایس سی او سمٹ کے موقع پر نریندر مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ پناک رنجن چکرورتی کہتے ہیں کہ لداخ کے بعض متنازع مقامات سے دونوں ملکوں کی افواج کی واپسی سے اس قیاس آرائی کو تقویت حاصل ہوئی تھی۔ لیکن اس پورے معاملے پر نظر رکھنے والوں کا خیال اس سے مختلف تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ چوں کہ چین ہی ایس سی او کا بانی ملک ہے اس لیے شی جن پنگ کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں مودی سمٹ میں شرکت سے انکار نہ کر دیں۔ اسی لیے وہ مشرقی لداخ کے پیٹرولنگ پوائنٹ 15 سے اپنی افواج کی واپسی پر آمادہ ہوئے۔ کیوں کہ اگر مودی نہیں جاتے تو یہ چین کی بہت بڑی سفارتی سبکی ہوتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دراصل چین کی جانب سے افواج کی واپسی ایک طرح سے بھارت کے سامنے دانہ ڈالنے والی بات تھی۔ شی جن پنگ کا خیال تھا کہ اس طرح نریندر مودی ان سے ملاقات کر لیں گے۔


ان کے خیال میں ابھی تو چین نے پیٹرولنگ پوائنٹ 15 سے اپنی فوجیں ہٹائی ہیں ابھی ڈیمچوک اور دیپسانگ دو اہم متنازع مقامات ایسے ہیں جہاں سے اسے اپنی فوجوں کو واپس بلانا ہے۔ بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر بار بار کہہ چکے ہیں کہ جب تک چین اپنی پرانی پوزیشن پر واپس نہیں جاتا باہمی تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی۔

ان کے خیال میں نریندر مودی نے شی جن پنگ سے ملاقات کی خواہش ہی نہیں ظاہر کی اور شی نے بھی اس کی کوئی کوشش نہیں کی۔ لہٰذا یہ معاملہ جہاں تھا وہیں رہ گیا۔ ان کے مطابق اگر چہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کچھ کمی آئی ہے لیکن ابھی حالات ایسے نہیں ہیں کہ مودی شی جن پنگ سے ملاقات کریں۔

ادھر شی جن پنگ نے ایس سی او کا اگلا چیئرمین ہونے پر بھار ت کو مبارک باد بھی دی۔ بھارت 2023 میں ایس سی او کا چیئرمین ہوگا۔ شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں بھارت کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ چین ایس سی او کی اگلی سمٹ کے انعقاد میں بھارت کی مدد کرے گا۔

یاد رہے کہ 2020 میں لداخ میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی پیدا ہونے کے بعد دونوں رہنما پہلی بار آمنے سامنے ہوئے تھے۔

ازبکستان کے صدر شوکت مرزئیوف نے 16 ستمبر کو سمرقند میں ایس سی او کی چیئرمین شپ بھارت کے حوالے کی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG