رسائی کے لنکس

بھارت کا آلۂ کار ہونے کا الزام؛ کشمیر میں خوف زدہ صحافی مستعفی ہونے لگے


سرینگر کے مشتاق پریس انکلیومیں ایک سیکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہا ہے۔ اس پریس انکلیو کو پریس کالونی بھی کہا جاتا ہے۔ (فائل فوٹؐو)
سرینگر کے مشتاق پریس انکلیومیں ایک سیکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہا ہے۔ اس پریس انکلیو کو پریس کالونی بھی کہا جاتا ہے۔ (فائل فوٹؐو)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے 21 صحافیوں کے نام ایک ویب سائٹ پردھمکی آمیز بلاگ پوسٹ میں دیے گئے ہیں، جس کے بعد مقامی صحافیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ ویب سائٹ کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ اسے علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کا ایک گروہ چلا رہا ہے۔

گزشتہ کچھ دن کے دوران سرینگر سے شائع ہونے والے دو انگریزی اخبارات میں کام کرنے والے کم از کم پانچ صحافیوں نے سوشل میڈیا پر مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا ہے ۔

ویب سائٹ پر دھمکی آمیز بلاگ پوسٹ میں21 صحافیوں اور دیگر میڈیا پرسنز کا ذکر ہے جن پر بھارت کے آلۂ کار ہونے اور فوج ، پولیس اور دوسری ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا تنخواہ دار ہونے کا الزام لگایا گیا ۔

بھارت میں مدیروں کی تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے کشمیری صحافیوں کو آن لائن دی گئی دھمکیوں اور اس کے پس منظر میں پانچ صحافیوں کے مستعفی ہوجانے پر گہر ی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جمعے کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں گلڈ نے کہا ہے کہ علاقے میں میڈیا کی آزادی اور متحرک سول سوسائٹی کے لیے بتدریج زمین تنگ ہورہی ہے۔ ​

بیان کے مطابق ایڈٹرز گلڈ نے بھارتی کشمیر کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ میڈیا کو آزادی اور غیر جانب داری کے ساتھ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرے۔

صحافیوں کی بعض دیگر تنظیموں نے بھی اس سلسلے میں بیانات دیے ہیں اور کشمیری صحافیوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

اس دوراں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نےصحافیوں اور میڈیا ہاؤسز سے کہا ہے کہ وہ اس آن لائن دھمکی پر رپورٹنگ اور بحث و مباحثوں کے دوران اُن صحافیوں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ دیگر افراد کے نام نہ لیں جن کا بلاگ پوسٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے ان کے ناموں کی تشہیر ان کی جانوں کے لیے خطرہ کا باعث بن سکتی ہے۔

دو مقامی اخبارات 'گریٹر کشمیر' اور'دی رائزنگ کشمیر' جب کہ ایک مقامی ٹی وی چینل 'عالمی نیوز نیٹ ورک‘ (اے این این) کے مالکان اور ان سے وابستہ صحافیوں کو بھی اس بلاگ پوسٹ میں نشانہ بنایا گیا ہے۔

’اے این این‘ کی ویب سائٹ کی رپورٹ میں دھمکی آمیز بلاگ پوسٹ کو فیک نیوز یعنی جعلی قرار دیا گیا ہے۔

اے این این کے مطابق اس ادارے سے وابستہ صحافی اور دیگر افراد پیشہ وارانہ ذمہ داریاں دیانت داری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں اور ان پر لگائے جانے والےالزامات بے بنیاد ہیں۔

'دی رائزنگ کشمیر' سے مستعفی ہونے والے ایک صحافی نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’بلاگ پوسٹ میں لگائے گئے الزامات میں کتنی صداقت ہے میں نہیں جانتا، لیکن عام لوگ اس اخبار کو پرو اسٹیبلشمنٹ سمجھتے ہیں ۔ بلاگ پوسٹ نے میرے والدین کو پریشان کر دیاتھا جب کہ میں خود بھی خوف زدہ ہوگیا تھا۔ اس لیے میں نے مستعفی ہونا بہتر سمجھا۔‘‘

ایک اور صحافی نے کہا کہ ’’سچ کیا ہے، جھوٹ کیا ہے، اس سے قطع نظر میں کسی قسم کی بد نامی مول نہیں لینا چاہتا اور نہ ہی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

'گریٹر کشمیر' میں کام کرنے والے ایک صحافی نے، جس کے نام کے آگے بلاگ پوسٹ میں 'پولیس سورس ' لکھا گیا ہے، بتایا کہ اس پر لگایا گیا یہ الزام بے ہودہ ہے ۔

حکام نے سرینگر کے مشتاق پریس انکلیو میں، جسے عام لوگ پریس کالونی کے نام سے جانتے ہیں، سیکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کر دیے ہیں۔ اس پریس انکلیو میں 'دی رائزنگ کشمیر' ، 'گریٹر کشمیر‘ کے ساتھ ساتھ چند دوسرے اخبارات اور صحافیوں کے دفاتر ہیں۔

دھمکی آمیز بلاگ پوسٹ میں جن صحافیوں کے نام آئے ہیں پولیس نے ان سے احتیاط برتنے کے لیے کہا ہے۔

ایک صحافی نے بتایا کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ان کو فون کرکے بتایا کہ عسکریت پسندوں کی دھمکی کے پیشِ نظر وہ احتیاط برتیں۔ اپنی نقل و حرکت کو فی الحال محدود کردیں جب کہ دفتر اور گھر پر بالخصوص اجنبی افراد سے ملنے سے اجتناب کریں۔

چند ایک صحافیوں کو پہلے ہی فراہم کیے گئے پولیس گارڈز کو چوکنا کردیا گیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق حکام مزید ایسے صحافیوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں جن کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کے زیادہ امکانات ہیں۔

ایک پولیس افسر نے اس شرط پر اس کا نام ظاہر نہ کیا جائے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ " ہم نےاس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے ۔ دہشت گردوں کی طرف سے ان میں سے کسی بھی صحافی کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اس کے لیے ہماری طرف سے سب ہی ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔"

پولیس نے اس سلسلے میں ایک مقامی تھانے میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون مجریہ1967 اور تعریزات ہند کی متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر بھی درج کی ہے جب کہ تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس سلسلے میں چند افراد سے تفتیش بھی کی گئی ہے۔

بلاگ پوسٹ 'کشمیر فائٹ ڈاٹ کام' نامی ایک ویب سائٹ میں شائع کی گئی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس ویب سائٹ کو بھارت کی وزارتِ الیکٹرانکس و انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دو سال پہلے یہ کہہ کر بلاک کردیا تھا کہ یہ انتشار پھیلانے اور بھارت مخالف پروپیگنڈےکو فروغ دے رہی ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس ویب سائٹ پر سرکردہ کشمیری صحافی اور 'دی رائزنگ کشمیر' کے مدیر و مالک سید شجاعت بخاری اور وکیل بابر قادری کے نام بھی اسی طرح آئے تھے اور ان پر بھی بھارت کے آلۂ کار ہونے کا الزام لگایا گیا تھا ۔

شجاعت بخاری کو 14 جون 2018 اور بابر قادری کو 25 ستمبر 2020 میں سرینگر میں نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔

بھارتی کشمیر میں صحافیوں کو دباؤ کا سامنا
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:17 0:00

پولیس نے ان کے دونوں افراد کے قتل کے لیے بھارت میں کالعدم عسکری تنظیم لشکرِ طیبہ کو ذمہ دار قرار دیا تھا ابتہ اس نے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی تھی۔

'کشمیرفائٹ ڈاٹ کام' پر 21 صحافیوں اور دیگر میڈیا پرسنز کے نام ڈال کر انہیں جعلی صحافی قراردیتے ہوئے الزام لگایا گیا ہے کہ"ان میں سے کچھ معتبر صحافیوں کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلا رہے ہیں اور کچھ کو کشمیر میں جاری تحریکِ مزاحمت کا بیانیہ تبدیل کرنے اور قبضے اور جاہلیت کے نظریے کو دوام بخشنے کا کام سونپا گیا ہے۔"

ویب سائٹ میں ان صحافیوں کے ناموں کے ساتھ یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ "ہم نے ان کے مالی لین دین اور ان دیگر فوائد کی تحقیقات بھی کی ہیں جو انہیں اپنا ضمیر بیچنے کے عوض کک بیکس یا رشوت کے طور پر حاصل ہوئے ہیں۔‘‘

ان میں سے کئی ایک صحافیوں کو ’غدار‘، ’قابض حکومت کاشراکت دار‘ اور ’کٹھ پتلی‘ کہا گیا ہے ۔

یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ یہ تمام صحافی قابض ایجنسیز کے قریب ہیں اور بھارت کے قابض بیانیے کی وکالت کرتے ہیں۔ نیز حریت پسند لوگوں کے بارے میں انہیں اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔"

بعض صحافیوں پر لوگوں کو بلیک میل کرنے اور جنسی زیادتی کے معاملوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے اوریہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’کئی بہنوں نے ہماری تین ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات کے دوران ہم سے رابطہ قائم کیا اور نام نہاد صحافیوں کے خلاف شکایات درج کرائیں۔‘‘

ویب سائٹ کے مطابق ’’76 ایسے صحافی اور ذرائع ابلاغ سےوابستہ دوسرے افراد ہیں جنہیں مرتکب پایا گیا ہے اور ان میں سے جن کے نام ظاہر کئے گئے ہیں ان کے حساب کا وقت آچکا ہے۔‘‘

پولیس حکام کہتے ہیں کہ صحافیوں کو دھمکی دینے کے پیچھے 'دی رزسٹنس فرنٹ ' کا ہاتھ ہے، جو ان کے بقول لشکرِ طیبہ کا ایک شیڈو گروپ ہے اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ دو برس کے دوران پیش آنے والے ٹارگٹ کلنگز کے بیشتر واقعات میں ملوث ہے۔

'دی رزسٹنس فرنٹ' کی طرف سے تاحال اس الزام کے ردِ عمل میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

View 360 - بدھ، 2 جون 2021 کا پروگرام
please wait

No media source currently available

0:00 0:24:31 0:00

پولیس نے جولائی 2021 میں سرینگر کے کوٹھی باغ تھانے میں تعزیراتِ ہند اور غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کی مختلف دفعات کے تحت ایک مقدمہ درج کرکے جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارکر پانچ افراد کو گرفتار کیا تھا جب کہ بڑی تعداد میں موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دوسرے الیکٹرانک آلات اور دستاویزات ضبط کی تھیں ۔

پولیس نے اُس وقت دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وائٹ کالر دہشت گردوں کے ایک سنڈیکیٹ کو بے نقاب کردیا ہے ۔

پولیس کے دعوے کے مطابق اس گروہ میں شامل افراد جن میں سرینگر میونسپل کارپوریشن کا ایک اعلیٰ عہدیدار، ان کا بیٹا اور بیٹی بھی شامل ہیں، سیاسی رہنماؤں ، سرکاری افسران، صحافیوں اور وکلا کو خفیہ طور پر چلائی جانے والی بلاگ سائٹ 'کشمیر فائٹ' پر نام ڈال کر خوف زدہ کر رہے تھے جب کہ انہیں دھمکیاں دے رہے تھے۔

پولیس نے اس گروہ کے مبینہ سرغنہ اور چار دوسرے ملزموں کو گرفتار اور بڑی تعداد میں ڈیجیٹل آلات کو ضبط کرنے کے بعد کہا تھا کہ اسے توقع ہے کہ تفتیش اور ڈیٹا کے تجزیے کے بعد شجاعت بخاری، بابر قادری اور تاجر ست پال نشچل کے قتل کے محرکات اور ان واقعات میں ملوث افراد کا پتا چل جائے گا۔

گزشتہ برس نو ستمبر 2021 کو پولیس نے سرینگر میں چار صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارکر ان کے اور ان کی بیویوں، بعض دوسرے اہلِ خانہ کے افراد کے استعمال میں رہنے والے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دستاویزات تحویل میں لی تھیں جب کہ ان صحافیوں شوکت احمد موٹا، ہلال احمد میر، اظہر قادری اور شاہ عباس سےایک مقامی پولیس تھانے میں پوچھ تاچھ بھی کی گئی تھی لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تھا ۔

صحافیوں کے گھروں پر چھاپے 'کشمیر فائٹ ڈاٹ کام' میں پانچ مقامی اخبارات کے مدیروں کے بارے میں مبینہ دھمکی آمیز مواد چھاپنے کے ایک روز بعد مارے گئے تھے۔

ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار وجے کمار نے اُس وقت کہا تھا کہ یہ کارروائی جولائی 2021 میں درج کیے گئے فوجداری مقدمے کے سلسلے میں کی گئی ہے اور اس سلسلے میں پولیس نے عدلیہ سے باضابطہ اجازت حاصل کی تھی۔

بھارتی کشمیر میں صحافت اور صحافی مشکل میں
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:14 0:00

صحافیوں کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں نے چار صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارنے کی پولیس کی کارروائی کی مذمت کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ یہ بھارت کے زیرِِ انتظام کشمیر کے صحافیوں کو ہراساں اور خوف زردہ کرنے کی ایک کارروائی ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت اور پولیس نے اس تنقید کو مسترد کرتےہوئے کہا تھا کہ علاقے میں میڈیا کواپنا کام کسی دھونس یا دباؤ کے بغیر سر انجام دینے کی مکمل آزادی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG