رسائی کے لنکس

افغانستان: حزبِ اسلامی کی داعش سے اتحاد کی تردید


حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کی فائل فوٹو
حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کی فائل فوٹو

ترجمان نے کہا ہے کہ 'حزبِ اسلامی' کی جانب سے افغان طالبان کے مقابلے میں داعش کی حمایت سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

افغانستان کی ایک اہم جنگجو تنظیم 'حزبِ اسلامی' نے داعش کے ساتھ اپنے اتحاد کی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے۔

حزبِ اسلامی کے ترجمان ہارون زرغون کے مطابق افغان ذرائع ابلاغ کو گزشتہ ہفتے 'حزبِ اسلامی' کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے نام سے موصول ہونے والا مبینہ بیان جس میں انہوں نے داعش کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا تھا، جعلی ہے۔

منگل کو اپنے ایک بیان میں ترجمان نے کہا ہے کہ 'حزبِ اسلامی' کی جانب سے افغان طالبان کے مقابلے میں داعش کی حمایت سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

گلبدین حکمت یار کا شمار 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان جنگجووں کے اہم ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔

انہیں نوے کی دہائی میں افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد بننے والی جہادی گروہوں کی مخلوط حکومت کا وزیرِاعظم مقرر کیا گیا تھا جو باہمی اختلافات، خانہ جنگی اور طالبان کی پیش قدمی کے باعث تحلیل ہوگئی تھی۔

تاہم 'حزبِ اسلامی' افغانستان کے مشرقی صوبوں کنڑ اور نورستان میں اب بھی ایک قابلِ ذکر طاقت ہے اور اس کی حمایت داعش کے لیے اہم ہوسکتی تھی جو طالبان تحریک کے مقابلے میں افغانستان میں قدم جمانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے افغان صوبے ننگرہار میں ایک امریکی ڈرون حملے میں افغانستان میں حال ہی میں قائم کی جانے والی داعش کی شاخ کے کئی رہنما مارے گئے تھے جن کی اکثریت سابق طالبان پر مشتمل تھی۔

افغان انٹیلی جنس نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں داعش کا سربراہ حافظ سعید بھی جمعے کو ہونے والے حملےمیں ہلاک ہونے والوں میں شامل تھا۔ لیکن داعش کی حامی ایک ویب سائٹ نے پیر کو حافظ سعید کا ایک آڈیو بیان جاری کرتے ہوئے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد حکمت یار افغانستان سے نکل گئے تھے اور خیال ہے کہ وہ پاکستان یا ایران میں مقیم ہیں۔ ان کے بہت سے سابق ساتھی افغانستان میں جاری سیاسی عمل میں شریک ہیں اور افغان حکومت کا حصہ ہیں جب کہ کئی طالبان تحریک میں شامل ہوگئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG