رسائی کے لنکس

ہومیوپیتھی: علاج کا مؤثر طریقہ یا محض ڈھکوسلا؟


ہومیو پیتھی پاکستان میں علاج کا مقبول طریقہ ہے اور ملک بھر میں 70 ہزار ہومیو پیتھ موجود ہیں۔ لاکھوں افراد ان سے علاج کراتے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ہومیو پیتھی کی جنم بھومی یورپ میں حکومتیں، میڈیکل انشورنس کی کمپنیاں اور ایلو پیتھک ماہرین اسے علاج کا غیر مؤثر طریقہ سمجھتے ہیں اور ہومیو پیتھ معالجین کو اتائی قرار دیتے ہیں۔

ہومیو پیتھی کا آغاز اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ہوا تھا۔ اس کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ انسانی جسم اپنا علاج خود کر سکتا ہے۔ ہومیو پیتھ جڑی بوٹیوں اور معدنیات سے دوائیں بناتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ دوائیں انسانی جسم سے بیماری ختم کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔

ہومیو پیتھی کے پاس بہت سی سنگین بیماریوں کا علاج نہیں اور اس کے پاس کسی بیماری کی ویکسین بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ، پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر ملکوں میں بے شمار لوگ اس کم خرچ علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔

یورپ کے کئی ممالک کی حکومتیں اور میڈیکل انشورنس کمپنیاں ہومیوپیتھی کو غیر موثر علاج کا طریقہ قرار دے کر اس پر خرچ ہونے والی رقم دینے سے انکار کرتی ہیں۔

حال میں برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے سربراہ سائمن اسٹیونز نے پروفیشنل اسٹینڈرڈز اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ سوسائٹی آف ہومیوپیتھس کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

انہوں نے ہومیوپیتھی کے بارے میں سنگین خدشات کا اظہار کیا کہ اور کہا کہ یہ بوگس طریقہ علاج ہے۔ دو سال پہلے این ایچ ایس نے ڈاکٹروں پر زور دیا تھا کہ وہ ہومیوپیتھی کی دواؤں کے نسخے لکھنا بند کر دیں۔

فرانس کی 60 فیصد آبادی ہومیوپیتھک دوائیں استعمال کرتی ہے، لیکن اس کی وزارت صحت نے چھ ماہ پہلے اعلان کیا کہ وہ ان کے لیے رقوم فراہم نہیں کرے گی۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ ہومیو پیتھک دوائیں صحت عامہ کے اس قدر کافی فوائد فراہم نہیں کرتیں کہ وفاقی حکومت ان کے لیے رقوم فراہم کرے۔

XS
SM
MD
LG