رسائی کے لنکس

12 برس بعد بھی زلزلے سے متاثرہ سیکڑوں اسکول بحالی کے منتظر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے شمال میں آنے والے تباہ کن زلزلے کو اتوار کو 12 سال مکلم ہو گئے لیکن تمام تر حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود اب بھی زلزلے سے متاثرہ اکثر علاقوں کے لوگ تعمیر نو اور بحالی کے کام سے مطمئن نہیں ہیں۔

خاص طور پر زلزلے سے تباہ ہونے والے اسکولوں کی ایک بڑی تعداد کو اب تک بحال نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ان علاقوں میں بچے عارضی عمارتوں یا پھر کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

آٹھ اکتوبر 2005ء کی صبح آنے والے زلزلے سے خیبرپختونخواہ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت مختلف علاقوں میں 75 ہزار کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے اور وسیع پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا تھا۔

صوبے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں بالاکوٹ، بٹگرام، شانگلہ اور کوہستان کے علاقے بھی شامل تھے۔

زلزلے کے بعد بحالی و تعمیر نو کے لیے ایرا کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا تھا جس نے فنڈز کے انتظامات کے ساتھ ساتھ تعمیر نو کی سرگرمیوں میں بھی معاونت فراہم کی۔ اس ادارے کے مطابق 1698 اسکولز تعمیر کیے جا چکے ہیں جب کہ 1227 وسائل کی کمی کی وجہ سے ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے ہیں۔

مرکز میں حکمران اور خیبر پختونخواہ میں حزب مخالف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے بالاکوٹ سے رکن صوبائی اسمبلی میاں ضیا الرحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتیں زلزلہ متاثرین کو بھول چکی ہیں۔

"بڑے دکھ سے کہتا ہوں کہ حکومت بالاکوٹ کے عوام کو بھول چکی ہے۔ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ بکریال کے مقام پر نیوبالاکوٹ سٹی تعمیر کیا جائے گا اور جس میں 2010ء میں لوگ آباد ہو جائیں گے آج 2017ء ہوگیا ہے اور بکریال پر کوئی کام نہیں ہو سکا۔ ہمارے جو اسکول ہیں ان کی بھی یہی صورتحال ہے۔"

لیکن صوبائی وزیر تعلیم محمد عاطف خان نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا کہ صوبائی حکومت زلزلہ متاثرین کے لیے اقدام نہیں کر رہی۔ تاہم انھوں نے یہ ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا اس ضمن میں فنڈز کی عدم فراہمی تعمیر نو کے کام میں بڑی رکاوٹ ہے۔

انھوں نے بھی یہ تسلیم کیا کہ اب بھی 1500 کے لگ بھگ متاثرہ اسکولوں کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی ہے۔

ماہر تعلیم سید سجاد شاہ اس ساری صورتحال کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد کرتے ہیں۔

"1500 میں سے 500 اسکول بھی نہیں بنے اور جو بنے وہ بھی بس ایسے ہیں باقی ابھی تک فنڈز کے ہی انتظار میں ہیں۔"

ان کے بقول ان سرگرمیوں کے ذمہ دار اداروں کے درمیان تعاون اور ربط کا بھی فقدان دیکھنے میں آتا ہے جس سے تعمیر نو کا عمل پس پشت چلا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG