رسائی کے لنکس

میڈیا ہی نہیں، این جی اوز بھی سیلف سنسرشپ پر مجبور ہیں: آئی اے رحمان


IA Rehman interview
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:00 0:00

آئی اے رحمان کو آج بیشتر لوگ انسانی حقوق کے رہنما کے طور پر جانتے ہیں۔ لیکن وہ بنیادی طور پر صحافی ہیں۔ پوری زندگی انھوں نے اظہار کی آزادی کے لیے جدوجہد کی ہے۔ وہ کئی عشروں تک پرنٹ میڈیا سے وابستہ رہے اور ’پاکستان ٹائمز‘ کے ایڈیٹر رہے۔ تین کتابیں بھی تصنیف کیں۔ گزشتہ تین عشروں سے وہ انسانی حقوق کمیشن کے ڈائریکٹر ہیں اور اپنی خدمات کے اعتراف میں کئی عالمی ایوارڈ سے نوازے جا چکے ہیں۔

میں نے آئی اے رحمان سے پوچھا کہ ان کا میڈیا سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ آج کل پاکستان میں میڈیا کس حال میں ہے؟

آئی اے رحمان نے کہا کہ ’’پاکستان میں میڈیا کی صورتحال خاصی خراب ہوگئی ہے۔ مختلف قسم کی غیر قانونی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ کئی علاقوں میں اخبارات تقسیم نہیں ہونے دیتے۔ صحافیوں کو ان کے فرائض انجام دینے سے روکا جاتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا پر پروگرام چل رہا ہوتا ہے کہ درمیان میں ہدایت آجاتی ہے۔ نہایت منظم طریقے سے سوچ پر پابندی لگائی جارہی ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’حکومت نے ایک مسودہ تیار کیا ہے کہ وہ پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نیا قانون لانا چاہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ہے اور یہ اچھی بات نہیں ہے۔ ملک بحران میں ہے اور اس بحران سے نکلنے کے لیے اظہار کی آزادی بہت ضروری ہے۔ ورنہ آپ کو متبادل رائے نہیں ملے گی اور آپ غلطیوں کا شکار ہوجائیں گے‘‘۔

میں نے بے اختیار سوال کیا کہ میڈیا پر پابندیاں لگ رہی ہیں تو انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں؟

آئی اے رحمان نے بتایا کہ ’’میڈیا پر پابندیاں لگانے والوں کی جانب ہی سے یہ بندوبست بھی کیا جارہا ہے کہ ملک میں سول سوسائٹی کی کوئی تنظیم نہ رہے۔ بین الاقوامی این جی اوز کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنا سامان باندھیں اور یہاں سے چلے جائیں۔ مقامی تنظیموں کا ناطقہ بند کیا جا رہا ہے۔ نئی تنظیموں کی رجسٹریشن نہیں کی جا رہی۔ پرانی تنظیموں کی رجسٹریشن کی تجدید نہیں کی جا رہی۔ انھیں آزادانہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ نے انسانی حقوق کی تنظیموں کا ذکر کیا۔ اور بھی تنظیمیں ہیں جو احتجاج کرسکتی ہیں لیکن وہ سب حالات سے مجبور ہوکر خاموش ہوگئی ہیں یا خاموش کر دی گئی ہیں۔ یہ سیلف سنسرشپ، یعنی خود ہی خاموش ہوجانا ایسی بیماری ہے جو پاکستان میں پھیل گئی ہے۔ میڈیا والے بھی سیلف سنسرشپ پر مجبور ہیں اور این جی اوز بھی اپنی سلامتی اسی میں دیکھ رہی ہیں کہ خاموش ہوجائیں‘‘۔

میں نے دریافت کیا کہ ایوب خاں، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتیں کہاں ہیں؟

آئی اے رحمان نے کہا کہ ’’وہ معاملہ ختم ہوچکا کہ کون ضیا الحق کے ساتھ تھا اور کون ضیا الحق کے خلاف تھا۔ وہی لوگ ہیں جو وردی بدل کر اور کپڑے بدل کر کبھی اس جماعت میں ہیں اور کبھی اس جماعت میں ہیں۔ اب حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ہماری سیاست میں ایسی کھچڑی پک گئی ہے کہ کل آپ کیا تھے اور آج کیا ہیں، اس بارے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان کا یہ دور اچھا نہیں ہے اور مستقبل میں مشکلات میں اضافہ ہوگا‘‘۔

میں نے سوال کیا کہ جبر کی جو صورتحال آپ نے بیان کی ہے، وہ تو مارشل لا والی ہے۔ ان حالات میں سب کو عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان کا خیال آتا ہے جو ایسے مواقع پر آواز اٹھاتے تھے۔

آئی اے رحمان نے کہا کہ ’’پاکستان میں جب پہلی بار مارشل لا لگایا گیا تو اسے سب سے کم جبر کی ضرورت تھی۔ جو اس کے بعد آیا، اسے زیادہ جبر کی ضرورت ہوئی۔ جیسے وقت گزرے گا، مارشل لا رجیم کو زیادہ جبر کی ضرورت پڑے گی۔ یہی ہو رہا ہے۔ جابر حکمرانوں کو اپنی غلطی کبھی نظر نہیں آتی۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم تو بالکل ٹھیک ہیں‘‘۔

بقول اُن کے، ’’عاصمہ کا ایک مقام تھا، وہ ہر ایک سے کہہ سکتی تھیں کہ یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ ہماری وہ حیثیت نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ آدمی جب دیکھتا ہے کہ پیچھے کوئی ہے یا نہیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے‘‘۔

میں نے پوچھا کہ جب انسان ہر جگہ سے مایوس ہوجاتا ہے تو عدالتوں کی طرف دیکھتا ہے۔ کیا چیف جسٹس سے کوئی امید ہے؟

آئی اے رحمان نے کہا کہ ’’میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ سپریم کورٹ کا جو دائرہ ہے، اس سے باہر جاکر کام کرنا ٹھیک نہیں ہے‘‘۔

میں نے آخری سوال کیا کہ پاکستان کے حالات کب تک ٹھیک ہونے کی امید کریں؟

آئی اے رحمان نے زور دے کر کہا کہ ’’پاکستان کے حالات ٹھیک ہوں گے۔ ہمیں امید ہے کہ حالات ضرور ٹھیک ہوں گے۔ پاکستان کے عوام انصاف پسند اور انصاف دوست ہیں۔ ان کے دل میں جمہوریت کے لیے جذبہ ہے۔ حالات ضرور بدلیں گے۔ لیکن ابھی کچھ عرصے تک امید کی کرن نظر نہیں آتی‘‘۔

نوٹ: وائس آف امریکہ اردو نے پاکستان میں پریس فریڈم کی صورتِ حال کے بارے میں انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس میں صحافیوں، ادیبوں، وکلا، میڈیا اداروں کے مالکان اور میڈیا کے بارے میں سرکاری پالیسی سے متعلق عہدیداروں سے گفتگو شامل کی جاتی رہے گی۔ اوپر دیا گیا انٹرویو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

XS
SM
MD
LG