رسائی کے لنکس

'شہریوں کا لاپتا ہونا نظامِ انصاف کی ناکامی ہے'


لاپتا افراد کے اہلِ خانہ اسلام آباد میں ان کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں (فائل فوٹو)
لاپتا افراد کے اہلِ خانہ اسلام آباد میں ان کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں (فائل فوٹو)

دالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد سے شہریوں کا لاپتا ہونا کریمنل جسٹس سسٹم کی ناکامی ہے۔ ایک شخص کو اغوا کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کے ایک رہائشی کی گمشدگی سے متعلق مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اسلام آباد سے شہریوں کا لاپتا ہونا کریمنل جسٹس سسٹم کی ناکامی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو ایک مہینے میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد انتظامیہ کے افسران پر جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

اسلام آباد کے رہائشی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ساجد محمود کو 14 مارچ 2016ء کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں واقع ان کے گھر سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا اور ان کا آج تک کوئی پتا نہیں چل سکا ہے۔

ساجد محمود تین بیٹیوں کے والد ہیں اور وہ گھر کے واحد کفیل تھے۔ ان کے اغوا کی ذمہ داری مبینہ طور پر پاکستان کی خفیہ ایجنسوں پر عائد کی جاتی رہی ہے۔

ساجد محمود کی اہلیہ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے سابق آئی جی اسلام آباد خالد خٹک، سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) ضمیر الحسن شاہ، سابق ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) مشتاق پر ایک، ایک روپے لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

عدالت نے ایس ایچ او شالیمار قیصر نیاز کو تین لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ حکومتِ پاکستان متاثرہ خاندان کو ہر ماہ ایک لاکھ 17 ہزار روپے ادا کرے۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ کریمنل جسٹس سسٹم کی ناکامی پر وفاقی حکومت تحقیقات کرے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ایک مہینے میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔ جے آئی ٹی سربراہ 15 روز کے بعد پیش رفت رپورٹ رجسٹرار آفس میں جمع کرائیں گے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد سے شہریوں کا لاپتا ہونا کریمنل جسٹس سسٹم کی ناکامی ہے۔ ایک شخص کو اغوا کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اسپیشل برانچ، انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس متعلقہ افراد سے معلومات اکھٹی کرے۔ لاپتا افراد کو بازیاب کرانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا ساجد محمود کی اہلیہ ماہرہ ساجد کی درخواست پر فیصلہ اوپن کورٹ میں پڑھ کر سنایا۔

انسانی حقوق کی ایک علاقائی تنظیم نے 2017ء میں دعویٰ کیا تھا کہ حکومتِ پاکستان ملک میں شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے سدباب میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ مستقبل میں جبری گمشدگیوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہوسکتا ہے۔

ایشین لیگل ریسورس سینٹر (اے ایل آر سی) نامی تنظیم نے دعویٰ کیا تھا کہ اقوامِ متحدہ اور اس کی انسانی حقوق کونسل کے ارکان کی اپیلوں کے باوجود حکومت جبری گمشدگیوں کے واقعات کی تحقیقات کے لیے مؤثر اور ٹھوس اقدامات نہیں کر رہی ہے۔

بیان میں حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ جبری گمشدگیوں کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد، خودمختار، قابل اعتماد اور فعال ادارہ قائم کرے جس کی تمام تحقیقات کھلی عدالت میں اور شفاف ہوں اور میڈیا کو بھی اس کی رپورٹنگ کی اجازت ہو۔

XS
SM
MD
LG