رسائی کے لنکس

مودی کے ہاتھوں رام مندر کا افتتاح؛ کیا بی جی پی کو انتخابات میں فائدہ ہوگا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے ساتھ دہلی کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ کیا وزیرِ اعظم نے ایودھیا سے انتخابی بگل بجا دیا ہے۔ کیا اس سے 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کو فائدہ ہوگا؟

مبصرین کے مطابق ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر دراصل ہندوؤں کے صدیوں پرانے ایک مطالبے کی تکمیل ہے۔ یہ کام وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں ہوا ہے تو وہ ان کو اس کے ثمرات بھی ملیں گے۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے جس طرح خود کو ایک راسخ العقیدہ ہندو کے طور پر پیش کیا اور مندر کے افتتاح پر ہونے والی پوجا میں شرکت سے قبل 11 دن کی سخت مذہبی عبادات کی ادائیگی کے دوران کئی مندروں کے درشن کیے۔ اس سے ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب دیگر ممالک میں آباد بھارت کے تارکینِ وطن کی لگ بھگ دو درجن تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں وزیرِ اعظم کے ہاتھوں مندر کے افتتاح کو خطرناک مثال قرار دیا گیا ہے۔

اسی دوران حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی 14 جنوری سے منی پور سے ممبئی تک کی چھ ہزار کلومیٹر کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ پر ہیں۔

راہل گاندھی 22 جنوری کو آسام کے ناگاؤں علاقے میں تھے۔ وہاں وہ ایک مندر میں درشن کرنے جانا چاہتے تھے۔ لیکن پولیس نے ان کو روک دیا جس پر وہ کچھ دیر تک دھرنے پر بیٹھے رہے۔

قبل ازیں آسام میں دو مقامات پر ان کے قافلے پر حملے ہوئے جن میں کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ کانگریس نے ان حملوں کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ آسام کے وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے ریاست میں راہل گاندھی کو یاترا کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم ان کو ایک روٹ الاٹ کیا گیا جس کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

نریندر مودی کے ہاتھوں رام مندر کا افتتاح؛ بھارتی مسلمان کیا سوچ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:38 0:00

رام مندر کے افتتاح کی تقریب میں کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے، کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی اور لوک سبھا میں کانگریس کے قائد ادھیر رنجن چوہدری کو دعوت نامے ارسال کیے گئے تھے۔ لیکن کانگریس نے یہ کہتے ہوئے تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا کہ یہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کا سیاسی ایونٹ ہے۔

متعدد اپوزیشن جماعتوں نے بھی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ تاہم اپوزیشن حکومت والی ریاستوں میں اس روز مختلف سماجی و مذہبی پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔

متعدد تجزیہ کار بھی رام مندر کے افتتاح کو مذہبی سے زیادہ سیاسی معاملہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کو جلدی تھی۔ انہوں نے شنکرآچاریوں کی مخالفت کے باوجود محض اس لیے مندر کا افتتاح کیا تاکہ ہندوؤں کے بڑے طبقے سے ان کا جذباتی تعلق قائم ہو جائے اور وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے تیسری بار وزیرِ اعظم بن جائیں۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی نے مندر کے افتتاح کے بعد وہاں موجود عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رام صدیوں کے انتظار، تحمل اور قربانی کے بعد آگئے ہیں۔ "میں رام سے معافی مانگتا ہوں کہ انہیں اب تک ٹینٹ میں رہنا پڑا تھا مگر اب وہ ٹینٹ میں نہیں رہیں گے بلکہ مندر میں رہیں گے۔"

مودی نے کہا کہ 22 جنوری صرف ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک نئے عہد کے آغاز سے عبارت ہے۔ ان کے بقول آج سے ہزار سال بعد بھی لوگ اس تاریخ کو یاد کریں گے۔ ہم ایک عہد کے آغاز کے گواہ بن رہے ہیں۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ آج سے ایک ہزار سال بعد کے بھارت کی تعمیر کا آغاز کریں۔

انہوں نے اپنی تقریر میں سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ رام مندر کی تعمیر عدالتی حکم سے ہو رہی ہے اور عدالت نے اس مندر کے حق میں فیصلہ دے کر انصاف کا سربلند کیا ہے۔

سیاسی سطح پر اگر مودی منتخب ہو کر مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم بنتے ہیں تو وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد کانگریس کے علاوہ کسی اور جماعت سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیرِ اعظم ہوں گے جو یہ ریکارڈ بنائیں گے۔

بی جے پی کو امید ہے کہ وہ رام مندر کے افتتاح کے بعد لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 400 جیتنے کے اپنے ہدف کو حاصل کر لے گی۔ 2019 میں بی جے پی نے 303 سیٹیں جیتی تھیں۔

ایسا سمجھا جاتا ہے کہ مارچ میں کسی وقت پارلیمانی انتخابات کا اعلان اور اس کے ساتھ ضابطۂ اخلاق کا نفاذ ہوگا۔مبصرین کے مطابق بی جے پی نے اس افتتاح کے ساتھ ہی پارلیمانی انتخابات کی مہم کا بگل بجا دیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس موقع پر جو جوش پیدا ہوا ہے اس کو انتخابات تک برقرار رکھنے کے لیے کئی پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں جن میں کلش یاترا، ایودھیا درشن، مندروں میں دیے جلانا، رام مندر تحریک کے کتابچوں کی تقسیم اور گھر گھر جا کر رام پرچم لہرانا شامل ہیں۔

دہلی کے اخبار ’دینک ہندوستان‘ کے مینیجنگ ایڈیٹر پرتاپ سوم ونشی کے مطابق دفعہ 370 کا خاتمہ، رام مندر کی تعمیر اور یکساں سول قانون بی جے پی کے ایجنڈے میں اہم رہے ہیں۔ اس نے اپنے دو ایجنڈے پورے کر لیے۔ یکساں سول قانون کی بھی بات کی جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ رام مندر کا افتتاح ایک سیاسی مقصد کے تحت کیا گیا ہے۔ اس موقع پر پورے ملک میں ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے میں خاصا جوش ہے۔ قبل ازیں تین ریاستوں کے انتخابات میں اسے کامیاب ملی۔ سوشل میڈیا کے توسط سے بھی اس کے حق میں ماحول سازی کی کوشش کی جا رہی ہے۔

لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس وقت عوام میں جو جوش ہے وہ انتخابات تک قائم رہے۔ یہ سب باتیں عارضی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت اپوزیشن کے مقابلے میں بی جے پی کا پلڑا بھاری ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی پر کئی کام کر رہی ہے۔

نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی جا رہی ہے جو دوسری سیاسی جماعتوں کے با اثر ارکانِ پارلیمنٹ کو بی جے پی میں لانے کی کوشش کرے گی۔ ایسے ارکانِ پارلیمنٹ کے اپنے حلقے میں اثر و رسوخ اور ان کی انتخابی کامیابی کے امکانات کی بنیاد پر یہ کوشش کی جائے گی۔

سینئر تجزیہ کار انجم نعیم یہاں تک کہتے ہیں کہ حکومت رام مندر کے افتتاح سے پیدا ہونے والے جوش سے فائدہ اٹھانے کے لیے قبل از وقت الیکشن کرانے کا اعلان بھی کر سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کئی محاذوں پر کام کر رہی ہے۔ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار اور وارانسی کی گیان واپی مسجد اور دیگر مسجدوں کے معاملوں پر سماعت ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں فیصلہ ہونا ہے۔

بی جے پی طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی اور شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے وغیرہ کا بھی ذکر کرتی رہتی ہے۔

تجزیہ کار انجم نعیم کے مطابق متعدد جذباتی ایشوز ہیں جن کی بنیاد پر بی جے پی انتخابات جیتنا چاہتی ہے۔

پرتاپ سوم ونشی بھی قبل از وقت انتخابات کے امکان کو مسترد نہیں کرتے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت قبل از وقت الیکشن نہ بھی کرائے اور اپریل ہی میں انتخابات کرائے جائیں تب بھی 25 فروری تک اس کا اعلامیہ جاری ہو جائے گا۔

تجزیہ کار انیرودھ دھر کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی کو امید ہے کہ وہ مندر کے افتتاح سے ہندوؤں کے مذہبی جزبات کا فائدہ اٹھا کر تیسری بار اقتدار میں واپس آ سکتے ہیں۔

ان کے مطابق اس تقریب نے بی جے پی اور اپوزیشن کے درمیان فرق کو اور بڑھا دیا ہے۔ بی جے پی نے کانگریس کے بائیکاٹ کو ہندو مخالف قرار دے کر اس کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

انجم نعیم کے خیال میں اپوزیشن کے پاس بی جے پی کے اس ہتھیار کے توڑ کا کوئی نسخہ نہیں ہے۔

جب کہ پرتاپ سوم ونشی کہتے ہیں کہ اپوزیشن بی جے پی سے لڑنے سے پہلے خود سے لڑنا بند کرے۔

ان کے مطابق اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے رہی ہیں۔ ان میں سیٹوں پر ابھی تک کوئی اتحاد نہیں ہو سکا ہے۔ انتخابی نکتۂ نظر سے اپوزیشن بی جے پی سے پیچھے ہے۔

کیا راہل گاندھی کی یاترا سے کانگریس کو انتخابات میں کوئی فائدہ پہنچے گا؟ اس سوال کا کوئی معقول جواب تجزیہ کاروں کے پاس نہیں ہے۔

کانگریس کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار اور کانگریس پر کتاب کے مصنف رشید قدوائی کہتے ہیں کہ کانگریس ’ایودھیا فلسفہ‘ کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ خاص طور پر شمالی بھارت میں کانگریس کے متعدد رہنما افتتاحی تقریب میں شرکت کے حامی تھے۔ لیکن جنوبی بھارت کے رہنماؤں کا فیصلہ اثر انداز ہوا اور کانگریس نے تقریب کا بائیکاٹ کیا۔

ان کے بقول کانگریس کے کئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ رام مندر کے افتتاح کا معاملہ بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہوگا۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور مغربی اور وسطی بھارت میں جہاں بی جے پی کا مقابلہ براہِ راست کانگریس سے ہے، ایودھیا کا معاملہ کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔

لیکن سینئر تجزیہ کار اجے کمار وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ بی جے پی کو نقصان ہی کہاں ہو رہا تھا جو اس معاملے سے فائدہ پہنچنے کی بات کی جا رہی ہے۔ بی جے پی کو مندر کے نام پر ووٹ مانگنے کی ضرورت نہیں۔ اسے اس کے ترقیاتی کاموں پر ووٹ ملتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کو سیاسی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ مذہبی اور ثقافتی معاملہ ہے اور پھر رام مندر کی تعمیر سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے ملک میں ترقیاتی سرگرمیوں کو نئی رفتار ملے گی۔ سیاحت اور تجارت کا فروغ ہوگا۔

ان کے بقول آج جس طرح ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے اسی طرح عظیم الشان مسجد کی بھی تعمیر ہونی چاہیے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایودھیا میں ایک مثالی مسجد بھی تعمیر کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آزادی کے 70 برس بعد بھی ہم غیر ملکی سیاحوں کو مغلوں کے دور کی تعمیرات دکھاتے ہیں۔ ہمیں اپنی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرنے والی عمارتوں کی تعمیر کی بھی ضرورت ہے۔

متعدد تجزیہ کار اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ بی جے پی مذہبی کارڈ تو کھیلتی ہی ہے مگر وہ ملک کی ترقی کے لیے بھی کام کرتی ہے۔ اس حکومت نے ایسے کئی منصوبوں پر کام کیا ہے جس سے عوام کو فائدہ پہنچا ہے۔

سینئر تجزیہ کار نیلانجن مکھوپادھیائے کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی خود کو ہندوؤں کے رہنما کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG