رسائی کے لنکس

پلوامہ واقعے کے تین برس مکمل: فروری کا مہینہ کشمیر کے لیےتاریخی اہمیت کیوں رکھتا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کےزیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حملے کو تین برس مکمل ہوگئے ہیں اور اس موقع پر بھارتی کشمیر سمیت ملک بھر میں سرکاری سطح پر کئی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

چودہ فروری 2019 کو پلوامہ میں بھارت کی سرحدی فورسز پر ہونے والے حملے میں 40 اہلکار ہلاک جب کہ آٹھ زخمی ہوئے تھے۔ واقعے کے تین برس مکمل ہونے پر پیر کو بھارت کی وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے اہلکاروں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نےپیر کو ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "میں 2019 میں آج کے دن پُلوامہ میں شہید ہونے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں اور قوم کے لیے ان کی شاندار خدمت کو یاد کرتا ہوں، ان کی بہادری اور عظیم قربانی ہر ایک بھارتی کو ایک مضبوط اور خوش حال ملک کے لیے کام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔"

14 فروری 2019 کو کیا ہوا تھا؟

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام سرینگر سے 21کلو میٹر جنوب میں واقع لیتہ پورہ کے مقام پر 14 فروری 2019 کو سی آر پی ایف کے ایک کانوائے پر خود کش حملہ ہوا تھا۔

نئی دہلی نے حملے کے بعد ردِ عمل کے طور پر منقسم کشمیر کے درمیان چلنے والی بس سروس 'کارروانِ امن ' کو بند کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان نواز عسکری تنظیم 'جیشِ محمد' پر عائد کی تھی۔ اس سلسلے میں بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے اگست 2020 میں کشمیر کی ایک خصوصی عدالت میں 13 ہزار 800 صفحات پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں ایجنسی نے 19 افراد پر حملہ کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔

این آئی اے کی رپورٹ میں جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر ، ان کے دو بھائی عبد الرؤف اصغر اور عمارعلوی، ایک قریبی رشتے دار محمد عمر فاروق اور خود کش بمبار عادل احمد ڈار بھی شامل تھے جب کہ دیگر ملزمان میں سے گیارہ کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور تین کا پاکستان سے تھا۔

تاہم پاکستان نے پُلوامہ حملے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کیا تھا ۔ پلوامہ حملے کے بارے میں پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ ایک قابلِ تشویش واقعہ تھا لیکن اس کے ساتھ پاکستان کو جوڑنا سراسر غلط اور بے بنیاد الزام ہے۔

پلوامہ حملے کے فوراً بعد پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ "یہ حملہ قطعی طور پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر ہی میں تیار کیا گیا اور یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس پر عمل درآمد بھی مقامی طور پر ہی کیا گیا تھا اور اس کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں۔"

پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی کارروائی

چھبیس فروری 2019 کو بھارت کے جنگی طیاروں نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں بالا کوٹ کے مقام پر جیشِ محمد کے مبینہ تربیتی مرکز پر حملہ کرکے اسے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا ۔

بھارتی ذرائع ابلاغ نے کہا تھا کہ پلوامہ حملے کے جواب میں کی گئی فضائی کارروائی میں کالعدم جیشِ محمد کے اراکین، تربیت کاروں اور بعض بڑے کمانڈروں سمیت 300 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

تاہم بھارت کے سیکرٹری خارجہ نے اپنے بیان میں بالا کوٹ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہدف بنائے جانے کی تصدیق تو کی تھی لیکن یہ واضح نہیں کیا تھا کہ اس واقعے میں کتنے دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔

پاکستان اور اس کے ذرائع ابلاغ نے اس حملے میں کسی بھی طرٖ ح کے جانی نقصان ہونے کی تردید کی تھی۔ تاہم خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے بھی مقامی لوگوں کے حوالے سے صرف ایک شہری کے زخمی ہونے کی خبر دی تھی۔

بالا کوٹ پر حملے کے اگلے ہی روز پاکستان کی فضائیہ نے جوابی کارروائی کی اور ڈوگ فائٹنگ کے نتیجے میں بھارتی پائلٹ ابھی نندن کے طیارے کو مار گرایا۔ تاہم پائلٹ اس میں محفوظ رہے جسے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر فوج نے اپنی حراست میں لیا۔ بعد ازاں انہیں جذبہ خیر سگالی کے تحت واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت کے حوالے کیا گیا تھا۔

بھارتی اپوزیشن کے شک و شبہات

بھارت میں حزبِ اختلاف کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ بالا کوٹ پر بھارتی فضائی حملے کا مقصد بھارت میں 11 اپریل اور 19 مئی 2019 کے درمیان ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو فائدہ پہنچانا تھا۔

بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی اور دہلی میں ان کے ہم منصب اروند کیجریوال اور اتر پردیش کی سابق وزیرِ اعلیٰ مایا وتی نے عام انتخابات ہی کو لے کر پلوامہ حملے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔

بھارت کے زیرِ انتطام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی اسی طرح کے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ پُلوامہ حملے کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔

نو اور گیارہ فروری کشمیر کے لیے اہم کیوں ؟

نو فروری کشمیر کے حوالے سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔بھارتی حکام نے نو فروری 2013 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں بھارت کے پارلیمان پر 2001 میں ہونے والے حملے میں مجرم قرار دیے گیے کشمیری باغی محمد افضل گورو کو پھانسی دی تھی۔

تیرہ دسمبر 2001 کو بھارت کے پارلیمان پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور ایک مالی ہلاک اور 13 اہلکاروں سمیت 16 افراد زخمی ہوئے تھے۔ جوابی کارروائی میں پانچ مشتبہ دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔

پلوامہ خودکش حملہ بھارت کے لئے لمحہ فکریہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:16 0:00

بھارت کی حکومت نے حملے کا ذمے دار 'جیش محمد' کو ٹھہرایا تھا۔ افضل گورو پر حملہ آوروں کی مدد کرکے بھارت کی حکومت کے خلاف جنگ اور حملے کے لیے کی گئی سازش میں شامل ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے افضل گورو کو انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے کہا تھا کہ "جرم کی سنجیدگی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا،اس واقعے میں بھاری جانی نقصان ہوا تھا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو صرف مجرم کو سزائے موت دینے سے ہی مطمئن کیا جاسکتا ہے۔"

لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے افضل گورو پر چلائے گئے مقدمے کے دوران اپنائے گئے طریقہ کار کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں موزوں قانونی نمائندگی فراہم نہیں کی گئی اور رازداری کے ساتھ تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

بعض قانونی ماہرین اور سیاسی جماعتوں کا کہنا تھا کہ افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکانے میں نہ صرف جلد بازی سے کام لیا گیا بلکہ اس سلسلے میں قانونی لوازمات کو بھی بالائے طاق رکھا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے نئی دہلی میں اُس وقت کی حکومت کے سیاسی مقاصد کار فرما تھے تاہم حکومت ان الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔

واضح رہے کہ افضل گورو کو پھانسی دینے کے بعد بالکل اسی طرح جیل کے احاطے ہی میں سپردِ خاک کیا گیا جس طرح کشمیری قوم پرست لیڈر محمد مقبول بٹ کے جسدِ خاکی کو تہاڑ جیل میں ہی دفنایا گیا تھا۔

کشمیر کے دونوں حصوں کی مکمل آزادی اور خود مختاری کے لیے کوشان تنظیم جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ (جے کے این ایل ایف) کے شریک بانی مقبول بٹ کو بھی فروری میں ہی پھانسی دی گئی تھی۔ یہ 11 فروری 1984کا دن تھا۔

مقبول بٹ کو پھانسی کی سزا کیوں ہوئی؟

مقبول بٹ کو 1960 کی دہائی کے وسط میں ایک بھارتی انٹیلی جنس افسر امر چند کو قتل کرنے کے مقدمے میں مجرم قرار دے کر ایک مقامی جج نیل کنٹھ گنجو نے موت کی سزا سنائی تھی۔

اس جج کو جے کے ایل ایف کے عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شروع کی گئی مسلح جدوجہد کے آغاز پر یعنی چار نومبر 1989 کو سرینگر کے ایک بھرے بازار میں گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔

مقبول بٹ اور افضل گورو کی برسی کے موقع پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم پانچ اگست 2019 کو بھارت کی حکومت کی طرف سے ریاست کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کیے جانے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنائےجانے کے بعد سے یہ سلسلہ ماند پڑ گیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری قیادت یا تو جیلوں میں نظر بند ہے یا پھر اپنے گھروں میں، جب کہ عسکری تنظیمیں بھی بھارتی سیکیورٹی فورسز کے شدید دباؤ میں ہیں اور آئے دن ان کے اراکین اور اوور گراونڈ کارکنوں کو ہلاک یا پھر قیدی بنایا جارہا ہے۔

رواں برس نو اور 11 فروری کو کشمیر میں جزوی ہڑتالیں کی گئیں۔ ان ہڑتالوں کے لیے کسی سیاسی یا عسکری تنظیم یا لیڈر نے اپیل نہیں کی تھی بلکہ تاجروں اور ٹرانسپورٹرز نے از خود کاروبار بند رکھا تھا۔

تاہم ماضی ہی کی طرح اس سال بھی 11 فروری کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، پاکستان اور دنیا کے کئی دوسرے حصوں میں مقبول بٹ کی برسی پر ان تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔

پانچ فروری کو یومِ یکجہتی منانے کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

پانچ فروری پاکستان میں کشمیریوں سے یکجہتی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے پاکستان بھر میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے جلسے اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک خاص دن مقرر کرنے کی تجویز جماعتِ اسلامی کے لیڈر قاضی حسین احمد نے 1990 میں دی تھی ۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تحریکِ مزاحمت نے مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس کے لیے پانچ فروری کا دن مقرر ہوا تو جماعت ِ اسلامی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کئی اور سیاسی جماعتوں اور اُس وقت کے صوبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں نواز شریف نے اس تجویز کی تائید و حمایت کی تھی۔

جماعتِ اسلامی پاکستان نے پانچ فروری 1990 کو ملک بھر میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک عام ہڑتال کی کال دی تھی۔ قاضی حسین احمد ، جماعت ِ اسلامی کے اتحادیوں اور اسلامی جمہوری اتحاد ( آئی جے آئی)کے صدر اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے بھی ہڑتال کی اس اپیل کی حمایت کی اور پنجاب میں عام ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔

اُس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو بھی پانچ فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر منانے کے فیصلے کا حصہ بن گئی تھیں۔

اس سے قبل بے نظیر بھٹو کے والد اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار بھٹو نے 1975 میں کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے خلاف ہڑتال کی اپیل کی تھی جس کے لیے 27 فروری کا دن مقرر کیا تھا۔

ستائیس فروری 1975 کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہمہ گیر ہڑتال کی گئی جب کہ پاکستان میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی ہوا تھا۔

یاد رہے کہ اندرا گاندھی اور کشمیری رہنما شیخ محمد عبد اللہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ'اندرا۔عبداللہ ایکارڈ ' کے نام سے مشہور ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG