رسائی کے لنکس

پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات: 2024 سے قبل مودی اور راہل گاندھی کی مقبولیت کا امتحان


بھارت کی پانچ ریاستوں چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش، تیلنگانہ اور میزورم میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو اپریل، مئی 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی 15 فی صد نشستیں ان ریاستوں سے آتی ہیں۔

ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مرکز میں حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور اپوزیشن جماعت کانگریس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔

مذکورہ ریاستوں میں منگل کو ووٹ ڈالنے کا آغاز ہو گیا۔ چھتیس گڑھ میں اسمبلی کی 90 نشستوں میں سے 20 پر، جو کہ نکسلی سرگرمیوں سے متاثرہ اضلاع میں واقع ہیں، پولنگ ہوئی۔ وہاں دوسرے اور آخری مرحلے میں 17 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔

شمال مشرقی ریاست میزورم کی تمام 40 نشستوں کے لیے منگل کو ووٹ ڈالے گئے۔ مدھیہ پردیش میں 230 نشستوں کے لیے 17، راجستھان میں 200 نشستوں کے لیے 23 اور تیلنگانہ میں 119 نشستوں کے لیے 30 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ تین دسمبر کو ووٹوں کی گنتی ہو گی۔

متعدد رائے شماریوں کے نتائج کے مطابق چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور کانگریس کے درمیان براہ راست مقابلہ ہے۔ جب کہ تیلنگانہ میں حکمراں ’بھارتیہ راشٹریہ سمیتی‘ (بی آر ایس)، کانگریس اور بی جے پی میں سہ رخی مقابلہ ہے۔

چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس، مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور تیلنگانہ میں 'بی آر ایس' کی حکومت ہے۔ میزورم میں ’میزو نیشنل فرنٹ‘ (ایم این ایف) برسرِاقتدار ہے اور وہاں اس کا مقابلہ اپوزیشن’زورم پیپلز موومنٹ‘ (زیڈ پی ایم) اور کانگریس سے ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس الیکشن میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کا امتحان ہے جو کہ تیسری بار پارلیمانی انتخابات جیت کر مرکز میں حکومت بنانا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی کا بھی امتحان ہے۔

ماہرین کے مطابق 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد کانگریس سیاسی طور پر بہت کمزور ہو گئی تھی۔ لیکن راہل گاندھی نے تقریباً چار ہزار کلومیٹر کی پیدل یاترا کر کے اس کو سیاسی منظرنامہ میں لا کھڑا کیا ہے۔

راہل گاندھی کی یاترا کے بعد ہونے والے متعدد سرویز میں یہ نتیجہ برآمد ہوا تھا کہ ان کی مقبولیت بڑھی اور وزیرِ اعظم مودی کی گری ہے۔ مقبولیت کا گراف اوپر جانے کی وجہ سے راہل نریند رمودی سے مقابلے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔

یاد رہے کہ ان کی یاترا کے بعد دو ریاستوں کرناٹک اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو کامیابی ملی تھی۔ اس نے کرناٹک میں بی جے پی سے حکومت چھین لی جب کہ ہماچل پردیش میں دوسری بار اپنی حکومت کو برقرار رکھا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگرچہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات الگ الگ ایشوز پر لڑے جاتے ہیں تاہم ان پانچوں اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کا اثر کسی نہ کسی طور پارلیمانی الیکشن پر ضرور پڑے گا۔

روزنامہ ’ہندوستان‘ کے ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کی فلاحی اسکیموں اور پروگراموں کی وجہ سے عوام بی جے پی کو ہی ووٹ دیں گے۔ اس سلسلے میں 80 کروڑ افراد کو 10 کلو ماہانہ مفت اناج دینے کی اسکیم کو مزید پانچ سال تک جاری رکھنے کے اعلان کا خاص طور پر ذکر کیا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی طرح کانگریس بھی ان ریاستوں میں سے کم از کم تین پر کامیاب ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ لیکن انتخابی نتائج ثابت کریں گے کہ کس کا دعویٰ درست تھا۔

ان کے بقول اگر پانچ میں سے چار ریاستوں میں بی جے پی ہار جاتی ہے تو اس کا اثر اس کے پارلیمانی امکانات پر پڑے گا۔ اس سے عوام میں یہ پیغام جائے گا کہ مودی حکومت کی پالیسیوں کو ان پانچ ریاستوں نے مسترد کر دیا ہے اور یہ کہ وزیرِ اعظم مودی کا جادو اب کام نہیں کر رہا۔

ان کے خیال میں اگر ایسا ہوا تو جہاں ایک طرف اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو زبردست تقویت حاصل ہو گی وہیں بی جے پی کے اندر جو اختلافی آوازیں ہیں ان کو بھی طاقت مل جائے گی اور جو لوگ مودی حکومت کی پالیسیوں کی اندر اندر مخالفت کرتے ہیں وہ کھل کر بولنے لگیں گے۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بی جے پی ہر حال میں کم از کم دو ریاستوں میں جیتنا چاہے گی۔ اس سے قبل کے اسمبلی انتخابات میں اسے کرناٹک اور ہماچل پردیش میں شکست ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن کو تقویت حاصل ہوئی تھی۔

'بی جے پی پر نریندر مودی کی مقبولیت ثابت کرنے کا دباؤ ہے'

سینئر تجزیہ کار شیکھر ایّر کا خیال ہے کہ اس وقت بی جے پی پر اس بات کا دباؤ ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وزیرِ اعظم مودی کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے۔ وہ اسی صورت میں یہ ثابت کر پائے گی جب کم از کم دو ریاستوں میں کامیابی حاصل کرے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس سے 2024 میں اس کو فائدہ ہوگا۔

مبصرین کے خیال میں موجودہ صورت حال یہ ہے کہ چھتیس گڑھ میں کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی کمزور ہے۔ وہاں بی جے پی کے پاس قائدین کی کمی ہے۔ راجستھان میں کانگریس مضبوط ہے اور بی جے پی میں اندرونی گروپ بازی نے اسے کمزور کیا ہے۔

مدھیہ پردیش میں بھی جہاں بی جے پی کی حکومت ہے کانگریس مضبوط ہے۔ وہاں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کامیاب ہوئی تھی اور کمل ناتھ کی قیادت میں اس کی حکومت بنی تھی۔ لیکن کانگریس کے جیوترادتیہ سندھیا نے بغاوت کر دی تھی جس کی وجہ سے کانگریس کی حکومت گر گئی اور بی جے پی نے حکومت بنا لی۔

پرتاپ سوم ونشی کہتے ہیں کہ چھتیس گڑھ میں کانگریس کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے جو حکمتِ عملی اختیار کی ہے اس سے کانگریس کا ’زعفرانی کرن‘ ہو گیا ہے۔ یعنی وہ بی جے پی کے ہتھیار سے ہی اسے مات دے رہے ہیں۔

لیکن سوم ونشی کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ راجستھان میں کس کی حکومت بنے گی کیوں کہ وہاں ہر پانچ سال پر حکومت بدلتی رہی ہے۔

شیکھر ایّر ایک نیوز ویب سائٹ ’منی کنٹرول‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ بی جے پی نے 2019 کے عام انتخابات میں پارلیمان کی 543 نشستوں میں سے ریکارڈ 303 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن اس بار اس کے لیے اتنی نشستیں حاصل کرنا مشکل ہو گا۔

بقول ان کے خود بی جے پی کے اندرونی ذرائع اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی 272 کی سادہ اکثریت حاصل کر لے گی۔ لیکن اگر صورت حال زیادہ خراب ہوئی تب بھی وہ 240 سے 250 تک سیٹیں جیت لے گی۔

مبصرین کے مطابق اگر کانگریس کو تین ریاستوں میں کامیابی مل جاتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ راہل گاندھی کو پہنچے گا۔ اس صورت میں وہ اپوزیشن کی قیادت کرنے اور وزیرِ اعظم کے عہدے کے امیدوار کی حیثیت سے دعویٰ پیش کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔

ادھر میزورم میں برسراقتدار ’میزو نیشنل فرنٹ‘ (ایم این ایف)، اپوزیشن ’زورم پیپلز موومنٹ‘ (زیڈ پی ایم) اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ہے۔ لیکن اول الذکر دونوں جماعتوں میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ وہاں بی جے پی کی موجودگی بہت کم ہے۔

مبصرین کے مطابق پڑوسی ریاست منی پور میں مہینوں سے جاری نسلی فساد اور مبینہ طور پر متعدد گرجا گھروں کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات کی وجہ سے مقامی باشندے بی جے پی سے ناراض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ زورم تھنگا نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ ان کی پارٹی مرکز میں بی جے پی کے زیر قیادت محاذ ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) میں شامل ہے لیکن ریاست میں حکومت سازی میں وہ بی جے پی سے اتحاد نہیں کریں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG