رسائی کے لنکس

بابری مسجد کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا عدالتی فیصلہ


سولہویں صدی میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد
سولہویں صدی میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد

بابری مسجد اور رام مند ر کے مقدمے پر ریاست اترپردیش میں الہ آباد ہائی کورٹ نے کثرت رائے سے سنی وقف بورڈ کی اُس درخواست مستر دکردیا ہے جس میں بابری مسجد کی زمین کی مکمل ملکیت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

جمعرات کو عدالت نے بابری مسجد کی اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے میں کہا کہ ایک حصہ رام جنم بھومی، ایک حصہ مسجد اور ایک نرموئی اکھاڑے کو دیا جائے۔

سنی وقف بورڈ کے وکلاء نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں منہدم کی گئی بابری مسجد کی زمین ہندوؤں یا مسلمانوں کے حوالے کرنے پر عدالتی فیصلہ کے رد عمل میں ممکنہ فرقہ وارانہ فسادات سے بچنے کے لیے حکومت نے ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کو علاقے میں تعینات کیا گیا تھا۔

1992ء میں ہندو انتہا پسندوں نے سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی بابری مسجد پر حملہ کر کے اس کو نظر آتش کر دیا تھا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد ہندوؤں کے دیوتا رام کی جائے پیدائش پر قائم کیے گئے رام مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی تھی۔

بابری مسجد پر حملے کے بعد ملک بھر میں ہونے والے فسادات میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

حالیہ عدالتی فیصلے کے جواب میں ممکنہ طور پر پرتشدد واقعات کا خطرہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب بھارت کے دارالحکومت دہلی میں اتوار سے کامن ویلتھ گیمز کا انعقاد ہو رہا ہے۔

بھارت کی حکمران جماعت کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے ہندوؤں اور مسلمانوں سے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو قبول کرنے کی اپیل کی ہے۔

حکومت نے موبائل فون پر ایک ہی وقت میں کئی افراد کو بھیجے جانے والے پیغامات پر پابندی عائد کر دی ہے تاکہ اس سہولت کے ذریعے لوگوں کو تشدد پر اکسانے سے باز رکھا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG