رسائی کے لنکس

کیا کشمیر کی سرحد پر پاکستان اور بھارت کا جنگ بندی معاہدہ خطرے میں ہے؟


پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع کشمیر میں سرحد پر دونوں ممالک کی فورسز کے مابین گزشتہ 10 روز میں دوسری مرتبہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ فائرنگ کے تبادلےکے بعد سرحدی علاقے کے مکین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کہیں سرحدی صورتِ حال ایک مرتبہ پھر ماضی کی طرح نہ ہوجائے۔

جمعرات کو ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی ایک 38 سالہ خاتون رجنی بالا اور بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) کے دو اہل کار بساؤ راج ایس آر اور شیر سنگھ زخمی ہو گئے۔

فائرنگ کے باعث سرحدی علاقوں ارنیا اور سچیت گڈھ کے کئی خاندانوں نے عارضی طور پر نقل مکانی بھی کی ہے۔

بھارت کے حکام نے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی رینجرز نے جمعرات کو رات آٹھ بجے سرحد کے ارنیا اور سچیت گڈھ سیکٹروں میں بی ایس ایف کی اگلی چوکیوں کو ہلکے اور درمیانی درجے کے ہتھیاروں اور مارٹر گولوں سے ہدف بنایا۔

ان کے بقول پاکستان رینجرز کی طرف سے داغے گئے چند مارٹر گولے شہری علاقوں میں گرے جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور کئی لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں میں بی ایس ایف کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان رینجرز نے پہلے ارنیا سیکٹر میں اس کی اگلی چوکیوں کے ساتھ ساتھ نصف درجن دیہات کو ہدف بنایا اور اس کے بعد سچیت گڈھ سیکٹر کے تین دیہات فائرنگ کی زد میں آئے۔

ترجمان نے الزام لگایا کہ پاکستان رینجرز کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ کی گئی جس کا مناسب جواب دیا گیا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کا کہنا ہے کہ سرحد پر فائرنگ کا سلسلہ شدت کے ساتھ رات 11بجے تک جاری رہا اور اس کے بعد جمعے کی صبح تین بجے تک وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔

ان کے بقول فائرنگ رکنے کے بعد محفوظ مقامات پر منتقل ہونے والے شہری واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان میں سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ فائرنگ کا آغاز بھارت کی سرحدی فورسز نے کیا۔

ان کے بقول جمعرات کی شام کو پاکستانی فورسز نے ملک کی حدود میں داخل ہونے والے ایک بھارتی ڈرون کو مار گرایا تھا اور دراندازی کی اس ناکام کوشش پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارتی فوسز نے ورکنگ باؤنڈری پر واقع پاکستانی چوکیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کا مناسب جواب دیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان ظفروال سیکٹر کے کئی مقامات پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ان واقعات میں پاکستان میں بھی کوئی جانی نقصان ہوا یا نہیں۔

اس سے قبل 17 اکتوبر کو ارنیا کے علاقے میں پاکستان اور بھارت کے سرحدی محافظین کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔ بھارتی حکام نے کہا تھا کہ پاکستان کی فائرنگ میں بی ایس ایف کے دو اہل کار زخمی ہوئے ہیں۔

پاکستان اور بھارت دونوں نے تب بھی ایک دوسرے پر نومبر 2003 میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا۔

دونوں ملکوں کی عسکری قیادت نے اس معاہدے کی فروری 2021میں تجدید کی تھی اور یہ عہد کیا تھا کہ معاہدے پرنہ صرف کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) بلکہ اس خطے کے دیگر سیکٹروں میں بھی سختی کے ساتھ عمل کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ فروری 2021 میں بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز پرم جیت سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب میجر جنرل نعمان زکریا نے اچانک اور غیر متوقع طور پر ایک بیان جاری کیا تھا۔ اس بیان میں کہا گیا تھا دونوں ملکوں کی افواج آپسی معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے جنگ بندی کے معاہدے پر سختی سے عمل کریں گی۔

ایل او سی اور سیالکوٹ-جموں سرحد جو پاکستان میں ورکنگ باؤنڈری اور بھارت میں انٹرنیشنل بارڈر کہلاتی ہے، کے دونوں جانب رہنے والوں نے اس معاہدے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان نومبر 2003 میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اگرچہ معاہدے کی کئی برس تک پاسداری ہوتی رہی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بالخصوص 2010 کے بعد اس کی متعدد مرتبہ خلاف ورزی کی گئی اور ہر بار دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرایا۔

سرحد پار سے فائرنگ کے واقعات میں دونوں ممالک کی افواج اور سرحدی محافظوں کو نہ صرف جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا بلکہ سب سے زیادہ ایل او سی کے قریب واقعے علاقہ مکین متاثر ہو رہے تھے۔

ان واقعات کے نتیجے میں دونوں جانب سینکڑوں شہریوں کی جانیں گئیں اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے جب کہ املاک بھی تباہ ہوئیں۔

بعد ازاں جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید اور اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں دونوں طرف کے سرحدی علاقوں میں معمولاتِ زندگی بحال ہوئے اور کسان بلا کسی خوف کے کام کرنے لگے تھے جب کہ تعلیمی اداروں میں بھی تدریسی عمل بلا رکاوٹ جاری تھا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے عہدے داروں کے مطابق جنگ بندی کے نتیجے میں اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا اور سرحد کے قریب واقع تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں میں تیزی آئی۔

البتہ دس روز میں سیالکوٹ- جموں سرحد پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے دو بڑے وقعات کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں وہ دن لوٹ نہ آئیں جب سرحدی علاقوں کے لوگ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے مالی اور جانی نقصان اٹھا رہے تھے اور مشکلات اور مصائب سے دوچار تھے۔

'مستقبل قریب میں کسی بڑے فوجی تصادم کا خدشہ نہیں'

تاہم تجزیہ کار ڈاکٹر ارون جوشی نے 17اکتوبر اور جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کو پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات کو علامتی قرار دیدیا اور کہا کہ پاکستان۔بھارت سرحد پر مستقبل قریب میں کسی بڑے فوجی تصادم کا خدشہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعات علامتی ہیں جو مقامی سطح پر پیش آنے والے کسی حادثے یا عمل کے نتیجے یا ردِعمل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کے بقول فریقین کے درمیان کسی بڑے فوجی تصادم کا خطرہ نہیں ہے۔دونوں ملکوں کی سیاسی قیادتیں اور عوام نہیں چاہتے کہ یہ سرحدوں تک تناؤ لوٹ آئے۔

ڈاکٹر ارون نے امید ظاہر کی کہ بی ایس ایف اور پاکستان رینجرز کے مقامی کمانڈر صورتِ حال کو معمول پر لانے میں کامیاب ہوں گے۔

پانچ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ

علاوہ ازیں بھارتی فوج اور نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک مشترکہ کارروائی کے دوران ایل او سی کے مژھل سیکٹر میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے دراندازی کرنے والے پانچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

سرینگر میں ایک اعلیٰ پولیس عہدے دار وجے کمار نے کہا کہ سرحدی ضلع کپوارہ کی پولیس کو خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ کالعدم لشکرِ طیبہ کے عسکریت پسندوں کا ایک گروہ ایل او سی کے راستے بھارتی کشمیر میں داخل ہونے والا ہے جس کے بعد بھارتی فوج کی 56 راشٹریہ رائفلز اور جموں وکشمیر پولیس نے علاقے میں آپریشن شروع کر دیا ۔

پاک بھارت جنگ بندی معاہدے سے امیدیں باندھنا کیسا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:38 0:00

وجے کمار نے کہا کہ اس سے پہلے ایل او سی کے اوڑی۔چکوٹھی علاقے میں 22اکتوبر کو اسی طرح کی ایک جھڑپ میں در اندازی کی کوشش کرنے والے دو عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا "ہماری انٹیلی جینس ایجنسیوں نے ایل او سی پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ ایل او سی پر در اندازی کرنے والے دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عمل جاری ہے۔"

سری نگر میں بھارتی فوج کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل ایم کے ساہو نے بتایا "مژھل سیکٹر میں کیا گیا آپریشن ایک بار پھر دہشت گردوں کے، جنہیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے ، عزائم کو سامنے لایا ہے ۔ وہ جموں و کشمیر میں در اندازی کرکے یہاں اپنی پُرتشدد کارروائیوں کےذریعے دہشت پھیلانا چاہتے ہیں۔"

پاکستان بھارتی حکام کی طرف سے لگائے جانے والے اس طرح کے الزامات کو بار ہا مسترد کرچکا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG