رسائی کے لنکس

بھارت نے انتخابی کامیابی پر پاکستانی مبارکباد کا جواب بھیج دیا


شنگھائی تعاون تنظیم کے بشکیک اجلاس میں شریک رہنماؤں کا گروپ فوٹو جس میں نریندرمودی اور عمران خان بھی موجود ہیں۔ 14 جون 2019
شنگھائی تعاون تنظیم کے بشکیک اجلاس میں شریک رہنماؤں کا گروپ فوٹو جس میں نریندرمودی اور عمران خان بھی موجود ہیں۔ 14 جون 2019

وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چند روز پہلے پاکستان کے ان خطوط کا جواب دیا ہے جن میں پارلیمانی انتخابات میں زبردست کامیابی پر مبارکباد کے پیغامات دیے گئے تھے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انتخابات میں شاندار کامیابی اور مودی حکومت کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر اپنے ہم منصبوں کو مبارکباد کے خطوط ارسال کیے تھے۔

متعدد عالمی رہنماؤں نے بھی مبارکباد دی تھی۔ بھارت نے جہاں تمام عالمی رہنماؤں کے پیغامات کا جواب فوری طور پر دیا، وہیں پاکستان کو اس کے خطوط کا جواب، گزشتہ ہفتے بشکیک میں ایس ایس او اجلاس کے موقع پر دونوں ہمسایہ ملکوں کے وزرائے اعظم کی مختصر ملاقات اور علیک سلیک کے بعد دیا ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ مروجہ سفارتی آداب کے تحت وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے پاکستان کو جواب دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ معمول کے اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات چاہتا ہے۔

رویش کمار سے پاکستانی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے پیغامات کے سلسلے میں سوال کیا گیا تھا۔ ان سے یہ سوال پاکستانی میڈیا کی ان مبینہ رپورٹوں کی روشنی میں کیا گیا جن میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنے جواب میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی تھی۔

ایک سینئر تجزیہ کار مفیض جیلانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے جس طرح انتخابات کے دوران پاکستان، قومی سلامتی اور قوم پرستی کے مسائل اٹھائے تھے اس کے پیش نظر ابھی فوری طور پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کا امکان بعید از قیاس ہے۔

لیکن بشکیک میں ملاقات سے قبل پاکستانی پیغامات کے جواب کیوں نہیں دیے گئے، اس پر ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان پر تنقید کرنے کی پالیسی بنا رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس لیے ممکن ہے کہ دہشت گردی کے تعلق سے بھارتی وزیر اعظم کو اپنے پاکستانی ہم منصب سے کوئی مثبت اشارہ ملا ہو۔

ان کے خیال میں مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پلوامہ جیسا حملہ ہو چکا ہے، فی الحال برف پگھلنے کے آثار نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ عمران خان نے حال ہی میں کہا ہے کہ خطے کو ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق نریندر مودی نے بھی اپنے خط میں ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دینے پر زور دیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھارت سے متعدد بار مذاکرات شروع کرنے کی اپیل کر چکے ہیں۔ مگر بھارت ابھی بات چیت کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG