رسائی کے لنکس

بھارت میں شرح پیدائش کم مگر رواں عشرے میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا: رپورٹ


فائیل فوٹو
فائیل فوٹو

بھارتی حکومت کے تازہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح کم ہوئی ہے، لیکن پھر بھی یہ اندیشہ موجود ہے کہ رواں عشرے میں بھارت چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔

اس وقت بھارت کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ اور اسّی لاکھ سے زیادہ ہے۔

چند دن پہلے جاری ہونے والے بھارتی قومی فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق 2019 سے 2021کے درمیان پیدائش کی شرح دو اعشاریہ ایک سے گھٹ کر دو پر آ گئی ہے۔ یعنی ہر شادی شدہ عورت اوسطاً دو بچوں کو جنم دے رہی ہے۔

پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹیو ڈائیریکٹر پونم متریجا کہتی ہیں کہ اس سروے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ بھارت کی آبادی میں بے تحاشہ اضافے کا اندازہ درست نہیں ہے اور ہم اپنی آبادی کو کنٹرول کر رہے ہیں، اور اب ہمیں اپنے نوجوانوں کی صحت، تعلیم اور فنّی تربیت پر زیادہ توجہ دینا ہو گی۔

نئی دہلی میں وائس آف امریکہ کی نامہ نگار انجنا پسریچہ کی رپورٹ کے مطابق 2015 میں شرح پیدائش 2.2 فی صد تھی۔ اس کے بعد سے خاص طور سے دیہی علاقوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں نے اپنا اثر دکھایا اور لوگوں نے اپنے خاندان کو کم رکھنے کی ضرورت کا ادراک کیا۔

اہرین کے کہتے ہیں کہ پچھلے دو عشروں کے دوران سماجی اور معاشی حالات میں خاصی بہتری آئی ہے، کم عمری کی شادیاں کم ہوئی ہیں اور لاکھوں لوگوں نے دیہات سے شہروں کا رخ کیا۔

ان عوامل کے نتیجے میں شہروں میں شرح پیدائش 1.6 فی صد تک آ گئی۔ ممبئی میں قائم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن اسٹڈیز کے ممتاز تحقیق کار سنجے کمار موہنتے کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمیں آبادی کو کم کرنے کے لیے مزید اضافی کوششوں کی ضرورت نہیں ہے، ماسوائے ان صوبوں کے جہاں اب بھی شرح پیدائش زیادہ ہے۔

بھارت کی آبادی میں تقسیمِ ہند کے بعد سے اب تک چار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ 1947 میں اس کی آبادی صرف 35 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ زیادہ تر اضافہ شمالی ریاستوں کے کم ترقی یافتہ علاقوں میں ہوا جب کہ جنوبی ریاستوں میں نسبتاً کم اضافہ ہوا، جس کی وجہ وہاں کی زیادہ شرخ خواندگی تھی۔

اب بھی شمالی بھارت کی تین ریاستوں، بہار، اتر پردیش، جھاڑ کھنڈ اور جنوب مشرقی ریاستوں میگھالایا اور منی پور میں ملک کے دوسرے حصّوں کے مقابلے میں شرح پیدائش زیادہ ہے۔

لیکن صحت کے ماہرین کے مطابق یہاں بھی اس بارے میں شعور پیدا ہو رہا ہے۔

پونم متریجا کہتی ہیں کہ بہار اور اتر پردیش جیسے صوبوں میں مقامی حکومتیں آبادی کو کم رکھنے کی بھر پور کوششیں کر رہی ہیں اور ان کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

بھارت میں کئی عشروں سے خاندانی منصوبہ بندی کے رضاکارانہ پروگرام چل رہے ہیں۔ 70 کے عشرے میں اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے خاصی جارحانہ پالیسی اختیار کی اور انہیں کے دور میں عوامی سطح پر نس بندی کا متنازع پروگرام شروع ہوا تھا۔

حالیہ برسوں میں اس مسئلے نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ اور کٹّر ہندو مذہبی گروپوں نے کہنا شروع کیا کہ مسلمانوں کے گھروں میں زیادہ بچے پیدا ہو رہے ہیں اور اس کی وجہ سے مستقبل میں بھارت میں آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا۔

رواں ماہ کے اوائل میں اتر پردیش اور آسام میں وہ متنازع بل سامنے آئے، جن کے تحت جن والدین کے دو سے زیادہ بچے ہوں گے، ان کو سرکاری ملازمتوں، ترقیوں، سرکاری رعایتوں سے محروم کر دیا جائے گا اور وہ مقامی انتخابات میں حصّہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ ان دونوں ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔ بھارت کی ان دوسری ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ایسی ہی قانون سازی پر غور کیا جا رہا ہے۔

آبادی سے متعلق اس سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ اب 292 لڑکیوں کے مقابلے میں ایک ہزار لڑکے ہیں۔

فی الحال اقوامِ متحدہ کا تخمینہ ہے کہ 2027 تک بھارت کی آبادی چین سے بڑھ جائی گی۔ البتہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ آبادی بڑھنے کی رفتار کم ہونے کے بعد شاید اس میں تاخیر ہو جائے۔

XS
SM
MD
LG